لاہور ۔۔۔ نواز طاہر
یہ بات یا واویلا بہت پرانا ہوچکا کہ صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی تنظیمیں مشرومز کی طرح اگ رہی ہیں اور ان کی تعداد بھی شمار میں آنے سے آگے بڑھ رہی ہے لیکن اصل اور ہر سال کا نوحہ یہ ہے کہ صحافیوں اور کارکنوں کے حقوق ، آزادی صحافت کی جنگ لڑتے اس دنیا س گزر جانے والے اکابرین اب ان بڑے بڑے ’پگڑ ‘ باندھنے کے ذہن سے نکل چکے ہیں اور انہیں فراموش کرکے انہیں قبروں میں تکلیف پہنچائی جارہی ہے ۔ انہیں اکابرین میں ایک معتبر نام نثار عثمانی کا ہے جنہیں پی ایف یو جے کے(دستور گروپ کا معاملہ الگ ہے ) دھڑے، شناخت کے لئے بلکہ اب تو صرف شوبازی کے لئے اپنا رہبر ورہنما مانتے ہوئے بلندو بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن عملی طور پر ان کی جدوجہد سے نہ صرف ہٹ چکے ہیں بلکہ ان کا نام لینے اور انہیں یاد رکھنے سے بھی کتراتے ہیں ۔ تین ستمبر کو نثارعثمانی اس جہاں فانی سے مرحوم اور ہم کارکن ان سے محروم ہوئے تھے ۔۔
نثار عثمانی کو کوئی دوسرا یادنہ رکھے تو اتنے دکھ اور کرب کی بات نہیں جتنی تکلیف دہ اور اذیت ناک بات لاہور میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس ( پی یو جے ) کی طرف سے انہیں فراموش کرنا ہے، ان کی برسی پر مزارِقائد پر جا کر فاتحہ خوانی کرنا تو درکنار ایگزیکیٹیو کونسل نے یا انفرادی طور پر بھی کسی عہدیدار نے فاتحہ خوانی کا سوچا تک نہیں اور تین ستمبر کا سورج اسی امید اور اڈیک کے ساتھ غروب ہوگیا کہ شائد ابھی ابھی ۔۔ابھی۔۔ ابھی۔۔ کسی دھڑے کی جانب سے پیغام موصول ہوجائے کہ عظیم قائد کی مغفرت کے لئے قرآن خوانی کا انتظام کیا گیا ہے ۔ یہ تو بھلا ہوان کے ساہیوال اور لاہور جیل کے ساتھی جاوید صدیقی کاجو کم از کم ریڈیو پاکستان پر نثار عثمانی مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے دستیاب تھے، وہ خراجِ عقیدت کیا پیش کررہے تھے یوں لگ رہا تھا آنسو بہار رہے اور ہچکیاں بندھی ہوئی ہیں حالانکہ وہ استقامت اور صبر کا امتحان نثارعثمانی مرھوم سے جیلوں میں اور لاٹھیاں برسائے جانے کی گواہی سڑکوں پر حاصل کرچکے تھے ۔ صرف لاہور میں اس وقت اس پی یو جے کے پانچ دھڑے ہیں جس کے صدر کبھی نثار عثمانی تھے اور بدترین دور میں کارکنوں کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے رہے ۔ آج جو لوگ اس بات پر راضی ہیں کہ میڈیا مالکان دو ماہ تک قانونی طور پر کارکنوں کی تنخواہ ادا نہ کرنے کی رعایت حاصل کرچکے ہیں وہ نہیں جانتے کہ کارکنوں کی اجرت کے لئے بھی نثار عثمانی کی قربانیاں کتنی ہیں ؟ ذمہ دارانہ رپورٹنگ کرنے والے تو نثار عثمانی کے الفاظ یاد رکھتے ہیں لیکن غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ ، من چاہئے الفاظ حقائق کو روند کر لکھنے اور بولنے والے بھی گرفت میں آنے پر نثار عثمانی کا ہی نام لیتے ہیں اور مدد کیلئے پکارتے ہیں اور اس گرفت کو صحافت کی آزادی پر حملہ قراردیتے ہیں حالانکہ نثار عثمانی کبھی حقئاق کے برعکس اور غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کیا کرتے تھے ۔ ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے بارے میں جیل کے اندر بھی وہ ساتھیوں کو تلقین کیا کرتے تھے ، یہی یاد تازہ کرتے ہوئے جاوید صدیقی بتاتے ہیں کہ نثارعثمانی تاکید کیا کرتے تھے کہ صحافی اپنی خبر کی تحقیق اور تصدیق کے بعد فائل کرے ، پھر اس کی صداقت کا امین ، ذمہ دار اور پہریدار بن کر ڈٹ جائے بھلے مقابلے میں بڑی سی بڑی طاقت ہی کیوں نہ تو وہی جیتے گا۔
جن کے لئے وہ ساری زندگی جدوجہد کرتے اورقیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے ان سے تو کہیں بہتر وہ اعلٰیٰ کردار عابد حسن منٹو ۔ عاصمہ جہانگیر اور سلمان اکرم راجہ کا ہے جنہوں نے نثار عثمانی کی محبت اور تکریم میں کارکنوں کا مقدمہ طویل عرصے تک کسی فیس کے بغیر لڑا جو کارکن جیت بھی گئے ۔ ان کی برسی خاموشی سے گذر جانا اور کسی کا یاد نہ رکھنا اپنے ہی ساتھ ظلم کے ماسوا کچھ نہیں اور ان کا نام استعمال کرکے اپنا قد بڑھانے پر بھی لعنت ہی کا حقدار قراردیا جاسکتاہے ۔ یہ بے حسی نثار عثمانی اور ان جیسے اکابرین کی جدوجہد کی توہین کی غماز ہے اور باقاعدہ ایجنڈا معلوم ہوتی ہے تاکہ کوئی یہ جان ہی نہ سکے کہ پاکستان میں صحافت کی آزادی اور کارکنوں کے حقوق کے لئے کوئی جدوجہد کی بھی گئی تھی ۔ پیشہ صحافت میں نئے آنے والوں کے ذہنی ، نفسیاتی اور سماجی مسائل اور ہوسکتے ہیں لیکن انہیں تاریخ سے نابلد نہیں رہنما چاہئے اور نہ ہی ایسا ہونے دینا چاہئے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ذمہ داری اب کون اپنے ذمے لے گا ؟ بنیادی طور پر یہ ذمہ داری تعلیمی اداروں اور کارکنوں کے حقوق کی علمبرداری کے دعویداروں کی ہے لیکن وہ اس سے کوسوں دور ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تعلیمی اداروں کے مالکان میں سے اکثریت میڈیا مالکان کی ہے جو کارکنوں کے استحصال میں شامل ہیں ۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے کہ جامعہ پنجاب میں ابھی تک صرف ایک مقالہ پی یو جے یا پی ایف یو جے کی جدوجہد پر موجود ہے جو کارکن صحافی اشرف سہیل نےبرسوں قبل لکھا تھا اور وہ بھی پی یو جے کے کسی گروپ کے ریکارڈ میں دستیاب نہیں ، جامعہ پنجاب میں کہیں دستیاب ہے یا نہیں اس پر کوئی رائےقائم نہیں کی جاسکتی ۔
نثار عثمانی یا ان جیسے اکابرین کو آج تو میں یا کوئی اور نظر انداز کرسکتا ہے لیکن تاریخ نہ توبھول سکتی ہے نہ نظر انداز کرسکتی ہے بلکہ دہراتی رہتی ہے اور بھلانے یا ایسے کرداروں پر مٹی ڈالنے والوں کی ملامت بھی کرتی رہتی ہے ، یقین ہے کہ کل کا صحافی نثار عثمانی اور ان جیسے اکابرین کو خراجِ تحسین وعقیدت بھی پیش کرتا رہے گا اور ان کی جدوجہد سے استفادہ کرتے ہوئے آگے بھی بڑھائے گا اور ہاتھ اٹھا کر ان کی مغفرت و درجات کی بلندی کے لئے دعا بھی کرتا رہے گا ۔(محمد نواز طاہر)۔۔