justice mansoor ka raasta pti ne roka

باپ کے ساتھ کیا ہوگا؟

تحریر: حامد میر۔۔
انسان خطا کا پتلا ہے اور میں تو بہت ہی خطا کار ہوں۔ اپنی خطا پر معافی مانگنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ آج مجھے ایک خطا کا اعتراف کرنا ہے اور میری وجہ سے کسی کا دل دکھا تو میں اس سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ یہ آج سے پانچ برس پہلے کی بات ہے۔ مرکز میں شاہد خاقان عباسی وزیراعظم اور بلوچستان میں ثنا اللہ زہری وزیر اعلیٰ تھے۔ دونوں کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا۔ 2018ءکے انتخابات قریب تھے اور پیپلز پارٹی ایک دفعہ پھر بلوچستان میں اپنے قدم جمانے کی کوششوں میں تھی۔ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) کے رکن عبدالقدوس بزنجو کو پیپلز پارٹی کی خواہش کا علم تھا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی سے درخواست کی کہ وزیراعلیٰ ثنا اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب بنانے میں ان کی مدد کی جائے کیونکہ بلوچستان اسمبلی کے کچھ ارکان کے آصف علی زرداری سے قریبی تعلقات تھے۔
بزنجو نے وعدہ کیا کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے۔ پیپلز پارٹی نے تن من اور دھن سے بزنجو کی حمایت شروع کردی۔ عبدالقدوس بزنجو وزیر اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے آئے۔ ثنا اللہ زہری کی اپنی جماعت کے ارکانِ صوبائی اسمبلی نے بھی ان کے خلاف بغاوت کردی۔ ایک دن پارٹی قیادت نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کو حکم دیا کہ وہ کوئٹہ جائیں اور ثنا اللہ زہری کی مدد کریں۔ عباسی صاحب کوئٹہ پہنچے اور زہری کو رازدارانہ انداز میں مشور ہ دیا کہ بہتر ہے آپ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کی بجائے خود ہی استعفیٰ دے دیں۔ زہری کو سمجھ آگئی کہ وزیر اعظم صاحب پارٹی قیادت کے احکامات کی بجائے کسی اور کے حکم پر عمل کر رہے ہیں۔ انہوں نے وزارت ِاعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا اور عبدالقدوس بزنجو نئے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ وعدے کے مطابق انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی بلکہ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ (ن) کے ارکان کے ساتھ مل کر ایک نئی پارٹی بنانے کے لئے جوڑ توڑ شروع کردیا۔ انہوں نے وفاقی کابینہ میں مسلم لیگ (ن) کے ایک وزیر جام کمال کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا اور بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک نئی جماعت بنا لی جس کے صدر جام کمال بن گئے۔ اس پارٹی کے قیام کا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے بہت مذاق اڑایا، اس جماعت میں ہمارے کچھ پرانے مہربان بھی شامل ہوگئے اور ہمیں پتہ چلا کہ اس نئی جماعت کے قیام میں ایک خفیہ ادارے کے بریگیڈئر صاحب کا بہت اہم کردار ہے۔ میں نے بی اے پی کے قیام کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ باپ کو بلوچستان کا نیا باپ بنا کر صوبے کے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو جائیں گے۔2018ءمیں آزاد امیدوار کی حیثیت سے سینیٹر بننے والے صادق سنجرانی کو پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم نے چیئرمین سینٹ منتخب کرایا تو وہ بھی باپ میں شامل ہوگئے۔ 2018ء کے عام انتخابات میں باپ کو بلوچستان اسمبلی میں 19 اور قومی اسمبلی میں پانچ نشستیں ملیں۔ ہمارے دوست میر خالد حسین مگسی قومی اسمبلی میں باپ کے پارلیمانی لیڈر بن گئے اور ہم اپنی پرانی بے تکلفی کا فائدہ اٹھا کر اکثر نجی محفلوں میں ان پر طنزیہ فقرے کستے رہتے اور وہ کمال عاجزی کے ساتھ اپنی سیاسی ولدیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہتے کہ ہمارا تعلق پاکستان کے اداروں سے ہے کسی دشمن ملک کے ادارے سے تو نہیں۔ ایک دن تو باپ کے ایک سینیٹرکُہدا بابر نے حق گوئی کی انتہا کردی۔وزیر اعظم عمران خان نوشکی آئے تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی ساتھ تھے۔باپ کے کئی سینیٹر اور ارکان اسمبلی نوشکی میں وزیر اعظم کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ یہاں وزیر اعظم نے باپ والوں سے کہا کہ اپنی پارٹی کو تحریک انصاف میں ضم کر دو۔
باپ والوں نے جنرل باجوہ کی طرف دیکھا تو انہوں نے ہاتھ میں پکڑی چھڑی گھماتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھنا شروع کردیا۔ وزیر اعظم نے ذرا سخت لہجے میں باپ والوں سے کہا کہ آئندہ حکومت بھی میری ہوگی لہٰذا میری پارٹی میں شامل ہو جائو۔ اس موقع پر سینیٹر کُہدا بابر نے دونوں ہاتھ باندھ کر وزیر اعظم سے عرض کیا کہ جناب آپ تو جانتے ہیں کہ ہمارا مائی باپ کون ہے؟ وزیر اعظم نے انجان بنتے ہوئے کہا کہ کون ہے تمہارا مائی باپ؟ سینیٹر کُہدا بابر نے آرمی چیف کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ یہ ہمارا مائی باپ ہے، یہ جیسا کہے گا ہم ویسا کریں گے۔ جنرل باجوہ نے فوری طور پر ایک وضاحتی بیان جاری کیا اور کہا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ وزیر اعظم کو سمجھ آگئی کہ باپ کا باپ ابھی راضی نہیں۔ اس قصے کا پتہ چلنے پر میں نےکُہدا بابر کے ساتھ خوب ہنسی مذاق کیا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر مجھے خاموش کراد یا کہ کم از کم ہمارے ظاہر و باطن میں کوئی فرق تو نہیں ہے۔ مارچ 2022ء میں عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی تو باپ میں کچھ اختلافات پیدا ہوگئے۔ میر خالد حسین مگسی نے تحریک عدم اعتماد کی حمایت کی تو باپ کو بنانے والے بریگیڈئر صاحب کا حکم آیا کہ آپ نے عمران خان کا ساتھ دینا ہے شہباز شریف کا نہیں۔ مگسی صاحب نے یہ حکم نظر انداز کردیا۔ پھر ایک شام جنرل باجوہ نے تحریک عدم اعتماد لانے والوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ اپنی تحریک واپس لیں۔ یہاں بھی بڑی عاجزی کے ساتھ سب سے پہلے انکار کرنے والے مگسی صاحب تھے جبکہ باجوہ کے سامنے بیٹھے بڑی جماعتوں کے لیڈر صرف ٹانگیں ہلاتے رہے۔ پہلی دفعہ مجھے احساس ہوا کہ باپ والے تابعدار تو ہیں لیکن چاپلوس نہیں ہیں اور بڑی عاجزی کے ساتھ انکار کرنا بھی جانتے ہیں۔ جس دن سینیٹ نے آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل منظور کیا تو میں پریس گیلری میں موجود تھا۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کے علاوہ تحریک انصاف نے بھی اس بل کی حمایت کی جو میرے لئے غیر متوقع تھی۔ بل کی منظوری کے بعد میں نے مگسی صاحب سے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سب بڑی جماعتیں آپ کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ انہوںنے ہاتھ جوڑ کر کہا …’’ نہیں نہیں بھائی! وہ ہم سے آگ نکل گئی ہیں…‘‘آرمی ایکٹ ترمیمی بل کی بھی کھل کر طاہر بزنجو اور مشتاق احمد خان نے مخالف کی اور اتوار کو پرتشدد انتہا پسندی کے خاتمے کے بل کی مخالفت میں بھی طاہر بزنجو اور مشتاق احمد خان آگے آگے تھے البتہ جے یو آئی (ف) کے عبدالغفور حیدری صاحب بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے اور چیئرمین صادق سنجرانی نے اس بل کو ڈراپ کردیا۔ آنے والے دنوں میں پارلیمینٹ سے پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل، ای سیفٹی بل اور پیکا ایکٹ 2016ء میں ترامیم کے بل بھی منظور کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ باپ والے تو صرف تابعدار تھے لیکن ووٹ کو عزت دینے کی دعویدار بڑی جماعتیں تو باپ کی بھی باپ نکلیں۔ پہلے تحریک انصاف نے باپ کو ہڑپ کرنے کی کوشش کی، پھر پیپلز پارٹی نے باپ میں نقب لگانے کی کوشش کی اور اب مسلم لیگ (ن) کی باپ پر نظر ہے۔ پتہ نہیں باپ کے ساتھ کیا ہوگا لیکن میں باپ والوں سے اپنی ماضی کی تنقید پر معافی مانگتا ہوں کیونکہ آپ تو صرف تابعدار تھے لیکن جو آپ کو ہڑپ کرنا چاہتے ہیں وہ تو چاپلوس نکلے۔(بشکریہ جنگ)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں