alu timatar lelo sahafi lelo

باوقار کورونا موت ۔۔ باعثِ شرم۔۔

تحریر: محمد نوازطاہر۔۔

پاکستان میں عوامی سیاست کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کے” روٹی کپڑا اور مکان ‘کے بعد ملک پر آہنی طاقت کے بل پر جنرل ضیاء نے ’ ملک میں اسلامی نظام ‘ اسی’ حاکم کی مدد سے مسلم لیگ کا ایک نیا دھڑا بنانے والے نواز شریف نے پہلے’ نفاذِ شریعت‘ اور پھر’ خدمت ‘ماضی قریب میں پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے ’دھرتی ہوگی ماں کے جیسی‘ کا نعرہ لگایا پھر تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار کی مسند پر بیٹھتے ہیں عمران خان نے ’ریاستِ مدینہ ‘ کا نعرہ لگا دیا ۔۔۔کوئی بتا سکتا ہے کہ ان نعروں میں سے کس نعرے پر کس حد تک عملدرآمد ہوسکا عمل ہوسکا ؟

چلیں کسی وقت ان نعروں کی حقیقت پر بحث کریں گے ، فی الوقت کرونا کی عالمی جنگ کے درپیش چیلنج اور اس کی وجہ سے ملک کو لاک ڈاﺅن کرنے کے حوالے سے جاری بحث میں بے روزگاروں اور بے گھروں کی حالت دیکھتے ہیں ۔

کہیں دور نہیں جاتے ، اپنی میڈیا انڈسٹری کی بات کرتے ہیں جہاں بے روزگاروں کی تعدا د برسرِ روزگار سے کہیں زائد ہے اور جو روزگار پر ہیں ان میں سے بھی نوے فیصد کی حالت نیم بے روزگاروں کی سے ہے کیونکہ انہیں تنخواہیں قسمت سے ہی ( ماسوائے دو ایک اداروں کے)مل رہی ہیں، باقی دس فیصد مراعات یافتہ اور اشرافیہ کی کلاس ہے جن کا غیرجانبدارانہ اور آزادانہ صحافت سے زیادہ مخصوص سوچ کی صحافت اور سوچ کے ساتھ ساتھ مفادات پر یقین ہے ۔ ان کی صحافت کی آزادی تبھی سامنے آتی ہے جب کسی خاص کو کوئی خاص ضرورت ہو ۔۔۔

لاک ڈاﺅن کی بحث کے دوران ایک بروزگار سے دریافت کیا تو گویا اس نے بیچ چوراہے اپنے کپڑے پھاڑ دیے صرف پیٹ ن ہی ننگا نہیں کیا ، جسم کاوہ سب کچھ معاشرے کے سامنے چٹا کورا رکھ دیا جو مخبوط الحواس کے ماسوا کوئی دوسرا کرے تو اس کے خلاف بے حیائی کا مقدمہ درج ہوسکتا ہے۔، سسکیاں اس کی آواز میں نہیں تھیں البتہ ماحول سسک رہا تھا، بتا رہا تھا کہ پچھلے کئی ماسہ سے گیس ، بجلی بند ہے ، پانی کا معلوم نہیں کب کنکشن کٹ جائے ؟ بچے اپنے دوست احباب کے گھر سے بیٹری اور موبائل فون چارج کرتے ہیں ، مختلف اوقات میں کھانا بھی پریس کلب سے کھاتے ہیں ، سکول کامنہ دیکھے مدت ہوگئی ، اکیڈیمی میں جاتے ہیں ، عزیز رشتہ داروں کو معلوم ہے کہ سب کچھ بہت سوکھا ہے اور شان سے ہیں ، اب کورونا نے سب پردے پھاڑ دیئے ہیں، گھر کے اندھیرے میں کب تک بیٹھا جاسکتا ہے ؟ اگر لاک ڈاﺅن ہوگیا تو گویا ہم قبر میں رہیں گے ۔۔ ایک میڈیا ورکر کی کہانی ہے، ایک اور میڈیا ورکر کی( جو اس کے بعد شائد مجھ سے اتنی ناراض ہوجائے کہ میں اس کے لئے واجب القتل ہوجاﺅں ) کہانی سنیئے ، میں کرائے کے ایک چھوٹے سے کمرہ نما گھر میں رہتی ہوں ، اس کا کرایہ ادا نہیں کیا جاسکتا ، روزگار نہیں ، محنت کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں ، اس نے مجھے کئی ماہ پہلے کوئی کام ڈھونڈ کردینے کے لئے کہا تھا ، وہ سمجھتی ہے کہ میں میرے بہت سے لوگوں سے رابطے اور دوستیاں ہیں ، اوہ کسی حد تک درست سمجھتی ، بہت سے لوگوں سے رابطے ہیں لیکن دوستیاں نہیں ، صرف واقفیت ہے ، دوستی کے مقام اور اس نام سے تو یہ معاشرہ کب کاناآشنا ہوچکا ہے۔ صرف مفاد ہی دوست ہے میں اس محترم خاتون کے کسی کام نہیں آسکا یہ الگ بات کہ میں نے کئی لوگوں سے بات بھی کی ۔ پچھلے دو تین ماہ سے میری ان محترم خاتون سے نہ ملاقات نہ ہی ان کا فون آیا ، میں شرمندگی کے باعث کال کرنہیں سکا ، معلوم نہیں کس حال میں ہیں ۔

ایک رکشہ ڈرائیور سے بات ہوئی تو بولا بھائی جی ، کرائے کا رکشہ ہے ، اب یہ بھی بند ہوگیا تو سمجھو فاقوں کو بھی ہماری حالت پررحم آئے گا ، بھوک بھی ندامت محسوس کرے گی ، زندہ رہنے کی آرزو بھلے ختم نہ ہو مگر زندگی ختم ہوجائے گی ؟ میرے معصوم ننھے بچوں اور بوڑھی ماں کا کیا ہوگا ، یہ سوب کر پورا جسم لرز اٹھتا ہے ۔

کبھی بھارت کی سڑکوں پر رات گذارنے والوں کی کہانیاں بڑے چسکے لگا کر سنائی جاستی تھیں اور کہا جاتا تھا کہ بھارت کو پاکستان سے دشمنی کی سزا اللہ نے غربت کی شکل میں دی ہی ، جبھی تو بھوکے ننگے ہندو انڈیا کی سڑکوں پر سوتے ہیں ، پھر ہم نے انہی ” ہندوﺅں ‘ کو لاہور اور کراچی کی سرکوں پر سوتے دیکھا ہے ، سڑکوں پر رات بسر کرنے والوں کی ایک بڑیءتعداد اس لاک ڈاﺅن میں کہا جائے گی ، یہ سڑک باسیوں سے پوچھنے کی ہمت نہیں پڑتی ۔ ایک خاص تعداد بڑی انا اور پردے کے ساتھ اپنی عزت کا بھرم رکھنے کے لئے شبِ بیداری کے نام پر بڑے مزارات پر گذارتی ہے جہاں عبادت کا موقع بھی مل جاتا ہے اور اقامت پر بھی سوالیہ نشان نہیں لگتا ، کچھ پیٹ پوجا بھی ہاتھ پھیلائے بغیر ہوجاتی ہے ۔ کس کس کا حال دریافت کریں ؟یہ سب کے سب ٹیکس گذار ہیں ، یہ جو کچھ بھی ، جتنا بھی خریدتے ہیں اس پر ٹیکس ادا کرتے ہیں ، یہ اس ملک کے حقیقی ٹیکس گذاروں کی حالت ہے ، یہ کبھی بھی کسی حکومت سے ریبیٹ نہیں لیتے ، ان کے نام کی سبسڈی بھی خواص کھا جاتے ہیں ۔۔۔

ہر ذی شعور اور اور حقیقت پسند شہری یہ تسلیم کرتا ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لئے جب کچھ کرنے کی نوبت آئے گی ، تب کی بات ہے ، ابھی تو احتیاط کا وقت ہے اس کا تقاضا ہے کہ لاک ڈاﺅن کی بھرپور حمایت کی جائے اور حکومت جو بھی فیصلہ کرے اس پر عمل کیا جائے لیکن خالی پیٹ ، کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے والوں ، روز کے روز ( اگر مل جائے تو ) دو وقت کی روٹی کمانے والوں کا کیا ہوگا ؟ کیا ان کے لئے حکومت کوئی قرنطینہ مرکز نہیں بناسکتی ؟ جن لوگوں نے دسترخواں کھولے ہیں وہ کچھ عرصے کے لئے میڈیکیٹڈ ماحول میں خوراک فراہم نہیں کرسکتے ؟ حکومت شاہانہ اخراجات ختم کرکے مخصوص اور محفوظ مراکز قائم نہیں کرسکتی جہاں لاک ڈاﺅن بھلے اسے بھوکوں کی جیل ہی قراردیاجائے ، کچھ عرصے کے لئے قیام و طعام کا انتظام نہیں کرسکتی ؟کیا عالمی اداروں کو یہ دکھائی نہیں دیتا کہ کونسا ملک لاک ڈاﺅن کا متحمل ہے اور کونسا نہیں ؟ عالمی ادارے کیوں دیکھیں جب یہ مایوس چہرے انہیں نظر نہیں آتے جن کا دعویٰ ہے کہ انہی کے ووٹ لیکر وہ اقتدار میں آتے ہیں ، حالانکہ وہ بخوبی آگاہ ہوتے ہیں کہ ان کے فرشتے ووٹر کون ہیں اور کس کس وقت کس کس کو کتنے کتنے ووٹ ڈالے گئے تھے ؟

بھوکے ننگوں کو خودکشی کی لعنت سے بچانے کے لئے کورونا وائرس ایک باوقار موت لایا ہے لیکن کیا عجب نہیں کہ ابھی بھی یہ بھوکے ننگے سمجھتے ہیں کہ ملک میں روٹی کپڑا مکان ملے گا ۔ملک میںاسلامی نظام آئے گا ،شریعت نافذ ہوگی ، حاکم وقت ان کا خادم بن کر ان کی خدمت کرے گا، ریاست ماں کے جیسے ہوگی اور پاکستان ریاستِ مدینہ جیساہوگا ۔۔۔۔؟یہ سب عجب نہیں باعثِ شرم ہے ۔(محمد نوازطاہر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں