تحریر : مبشر علی زیدی
پاکستان کے سب سے نڈر صحافی کا نام اظہر عباس ہے۔ جیونیوز کے ایم ڈی سے زیادہ بہادر کون ہوسکتا ہے؟ حکومت اور اپوزیشن، حریف چینل اور اخبارات، سیاسی جماعتیں اور پریشر گروپس، مالکان اور ملازمین، کسی کے بھی دباؤ کو قبول نہ کرنے والا بلکہ انھیں حد میں رکھنے والا کوئی عام آدمی ہوسکتا ہے؟
بس ایک بات سے اظہر صاحب گھبراتے تھے کہ کہیں میں ان کے بارے میں کچھ نہ لکھ دوں۔ اتفاق سے مجھے بھی ہمیشہ یہی ڈر رہا۔ لیکن مجھے یاد آرہا ہے کہ ایک بار خود اظہر صاحب نے کہا تھا کہ جس کام کا خوف سر پر سوار ہوجائے، اسے پہلی فرصت میں کر گزرو۔ چنانچہ میں دل تھام کر لکھتا ہوں۔ آپ دل تھام کر پڑھیے۔
اظہر صاحب کوئی لمبے تڑنگے پہلوان آدمی نہیں ہیں۔ لیکن ان کی شخصیت میں رعب بہت ہے۔ آغا خان جیسا میانہ قد، آغا خان جیسا گندمی رنگ، آغا خان جیسی چمکتی آنکھیں، آغا خان جیسی چوڑی پیشانی، آغا خان جیسے بال۔ وہ جیونیوز کی بلڈنگ میں گھستے ہیں تو ہر طرف سراسیمگی پھیل جاتی ہے۔
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن کیا، پورا نیوزروم، تمام بیوروز اور اسٹوڈیو بھی کانپ جاتا ہے۔ اظہر صاحب نے کسی ترکیب سے نیوزروم میں اپنی کرسی ایسی جگہ رکھوائی ہے کہ کوئی شخص کہیں بھی بیٹھا ہو یا کھڑا ہو یا لیٹا ہو، اظہر صاحب کی براہ راست نگاہ میں ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ ریسٹ روم میں لکڑی کا دروازہ لگا ہوا ہے ورنہ بہت سے لوگ مثانے کے مریض ہوجاتے۔
اظہر صاحب دن میں کم از کم ایک بار پورے نیوزروم کا چکر لگاتے ہیں۔ بڑی خبر آجائے یا بلیٹن میں غلطیاں ہوں تو ایک سے زیادہ پھیرے بھی ہوسکتے ہیں۔ ہر پھیرے پر مجمع کفار میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ کبھی کوئی رسوا ہوتا ہے، کبھی کوئی۔ ڈھیٹ سے ڈھیٹ آدمی ان کی ڈانٹ کی تاب نہیں لاپاتا۔ مجھ جیسے کمزور صحت والے لوگوں کو تو وہ گھوری دے کر ہی پچھاڑ دیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ میرا دوست، ہم ٹی وی کا ڈائریکٹر نیوز ندیم رضا جب جیونیوز میں تھا تو اس کی ایک آنکھ بلیٹن پر اور دوسری اظہر صاحب کے کمرے پر رہتی تھی۔ وہ جان بوجھ کر اس گول زینے کے پاس بیٹھتا تھا جو پانچویں اور چھٹی منزل کو ملاتا ہے۔ جیسے ہی اظہر صاحب کمرے سے نکلتے، وہ سیڑھیوں میں غروب ہوجاتا۔ اظہر صاحب دھاڑتے ہوئے آتے اور انھیں بھاری بھرم نیل گائے یعنی ندیم رضا کے بجائے اللہ میاں کی گائے یعنی مبشر علی زیدی ہی ملتا۔ انھیں لطف تو نہیں آتا ہوگا لیکن وہ اپنا موڈ اور میری طبیعت فریش کرکے ہی جاتے۔
ایک دن میں نے ڈانٹ کھانے کے بعد وہ تاریخی شعر کہا جو بہت دنوں تک مظلوم ملازمین کا ترانہ بنا رہا۔
صبح کلاس شام کلاس
اظہر عباس اظہر عباس
میں نے نیوزروم میں کئی بار ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو بے وقوفی کی حد تک بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اظہر صاحب سے بحث کر بیٹھے۔ اظہر صاحب ایسے موقع پر باس ہونے کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے۔ ماضی میں این ایف ایس سے تعلق اور سیاسی تربیت کی وجہ سے وہ ہر بحث جیتنا جانتے ہیں۔ ذہانت اور معلومات اس پر مستزاد۔ کم از کم میرے سامنے کبھی کوئی شخص اظہر صاحب سے مکالمہ نہیں جیت سکا۔ کیونکہ
عباس کے تو نام میں بھی زیر نہیں ہے
اظہر صاحب دو بار جیونیوز چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ دونوں بار جیونیوز کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ڈان گئے تو مشرف کی ایمرجنسی میں جیونیوز بند ہوا۔ بول گئے تو حامد میر پر حملے کے بعد جیونیوز بقا کے خطرے سے دوچار ہوا۔ اظہر صاحب واپس آئے تو عمران اسلم صاحب نے بھرے نیوز روم میں ان سے کہا:
اظہر۔۔۔ اب۔۔ بس!
میں نے اظہر صاحب کے بول جانے اور مجھے فون کرنے پر سو لفظوں کی ایک کہانی لکھی تھی جو میری کتاب شکرپارے میں شامل ہیں۔ اس کا عنوان تھا، جیو۔
۔
’’حضور! کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘ میں نے اجازت چاہی۔
’’ابھی نہیں۔‘‘ باس بولے۔ وہ مصروف تھے۔
چند دن بعد میں نے کہا،
’’جناب! کچھ عرض کرنا ہے۔‘‘
’’بعد میں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ میٹنگ میں چلے گئے۔
کئی دن گزر گئے۔ میں نے پھر کوشش کی۔
’’سر! ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’آج وقت نہیں۔‘‘ انھوں نے منع کردیا۔
باس میری سنتے نہیں تھے۔
میرے منہ میں زبان بلا وجہ جگہ گھیر رہی تھی۔
جمعرات کو میں نے آپریشن کروا کے زبان نکلوا دی۔
جمعہ کو باس نے استعفا دے دیا۔
ہفتے کو مجھے کال کیا۔
پتاہے کیا کہا؟
’’بول!‘‘
۔
اظہر صاحب کا تعلق پاکستان کے ان چند گھرانوں میں سے ایک خاندان سے ہے جس کا ہر شخص کوئی کمال کر بیٹھا ہے۔ پروفیسر کرار حسین، رئیس امروہوی اور انور مقصود کے خاندانوں کی طرح عباس فیملی بھی انتہائی رشک کے قابل ہے۔ بڑے بھائی جنرل اطہر عباس ڈی جی آئی ایس پی آر تھے۔ ظفر عباس ڈان کے ایڈیٹر ہیں۔ مظہر عباس پی ایف یو جے کے صدر رہے۔ اظہر صاحب تو اظہر صاحب ہیں۔
اظہر صاحب نے کراچی کے مشہور حبیب پبلک اسکول میں تعلیم حاصل کی تھی۔ گزشتہ سال وہاں تقریری مقابلہ ہوا تو اسکول والوں کو کوئی قابل شخص نہ ملا اور انھوں نے شاید کسی دھوکے میں مجھے مہمان کے طور پر مدعو کرلیا۔ میں نے اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جب بھی جیو میں کوئی سینئر یا جونیئر میری کسی بات پر تنقید یا اختلاف کرتا تو میں کہتا،’’ارے میاں جاؤ، تمھارے باس جس اسکول میں پڑھتے تھے نا، ہم وہاں مہمان خصوصی بن کے جاتے ہیں۔‘‘
فیس بک پر متحرک ہونے سے پہلے میں جیونیوز کے کچھ دوستوں کو ای میل پر اپنی تحریریں بھیجتا تھا۔ میں نے اس کا نام چائنیز بلیٹن رکھا تھا۔ ایک بار کسی سینئر سے ای میل پر جھڑپ ہوگئی۔ میں نے کوئی اوکھا جملہ لکھ دیا۔ اظہر صاحب کو پتا چل گیا اور انھوں نے صرف ون لائنر لکھا:
What is this nonsense? Stop this immediately.
میں نے اس جملے پر کہانی لکھ دی جو میری کتاب الم غلم میں شامل ہے۔ کہانی یوں ہے کہ میں نے دفتر فون کرکے اطلاع دی کہ آج میں دفتر نہیں آسکوں گا کیونکہ میرا انتقال ہوگیا ہے۔ میرے امیجیٹ سینئر نے کہا کہ آج اسٹاف کم ہے اس لیے جنازہ موخر کردو اور دفتر آکر نو بجے کا بلیٹن کرجاؤ۔ چنانچہ میں نے جنازہ رکوایا اور دفتر آکر بلیٹن پروڈیوس کیا۔ اس کے بعد ایمبولینس منگواکر قبرستان پہنچ گیا۔ مردے کو قبر میں ڈال رہے تھے کہ اظہر صاحب آگئے اور سلطان راہی کی طرح چلا کر کہا،
What is this nonsense? Stop this immediately.
میں نے عرض کیا کہ سر، آپ میرے جنازے میں آئے، بہت شکریہ۔ آپ کی محبت اپنی جگہ لیکن اب جانے کا وقت آگیا ہے۔ اخیر ہوگئی ہے۔ انھوں نے کہا، تم نو بجے کا بلیٹن کرکے کیوں بھاگ آئے؟ اگلے پروڈیوسر کا انتظار کیوں نہیں کیا۔ چلو واپس جاؤ۔ بارہ بجے کا بلیٹن کرنے کے لیے کوئی نہیں ہے وہاِں۔
میں نے جب کتاب چھاپنے کا ارادہ کیا تو یہ کہانی اس میں شامل کرنے کے لیے اظہر صاحب سے اجازت طلب کی۔ انھوں نے ایک ایسی بات کی جس نے میرے سوچنے کا انداز بدل دیا۔ اظہر صاحب نے کہا، اگر تم میری تصویر بناؤ اور وہ اچھی نہ بنے تو لوگ مجھ پر تنقید کریں گے یا تم پر؟ میں نے کہا کہ مجھ پر۔ انھوں نے کہا کہ جو جی چاہے لکھو لیکن یہ بات مت بھولنا۔
اظہر صاحب کی ایک دو خوبیاں ایسی ہیں جو میں نہیں لکھوں گا تو کسی کو پتا نہیں چلیں گی۔ جیونیوز کے ابتدائی دور میں ایک لڑکی نئی نئی ایم اے کرکے بھرتی ہوئی۔ اس کی تنخواہ پانچ چھ ہزار روپے تھی۔ اسے اینکر بننے کا بہت شوق تھا۔ جیونیوز میں موقع نہیں ملا۔ کوئی نیا ادارہ قائم ہوا تو وہ وہاں چلی گئی۔ سال بھر بعد جیونیوز میں دوبارہ ملازمت مل گئی۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کی تنخواہ مجھ سے ایک ہزار روپے زیادہ ہے۔
میں نے بیس بائیس سال کی ملازمت میں کبھی تنخواہ یا اس میں اضافے یا ترقی کا مطالبہ نہیں کیا۔ لوگ زیادہ تنخواہ مانگ کر نئے ادارے میں جاتے ہیں۔ میں نے تین بار کم تنخواہ پر ادارہ بدلا ہے۔ کریئر تنخواہ پر نہیں، مستقبل دیکھ کر آگے بڑھانا چاہیے۔
لیکن وہ واحد موقع تھا جب مجھے تاؤ آگیا۔ میں ان دنوں دبئی اسٹیشن پر تھا۔ ایک مہینے تک صبر کرکے بیٹھا رہا۔ جب تنخواہ اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوگئی تو میں نے اظہر صاحب کو ای میل کی کہ میں اتنا سینئر ہوں لیکن میری تنخواہ کم ہے اور میں نے جس لڑکی کو پروڈکشن سکھائی، اس کی تنخواہ مجھ سے ایک ہزار روپے زیادہ ہے۔ اب آپ میری تنخواہ دو ہزار بڑھا بھی دیں تو وہ لڑکی کم از کم ایک مہینے مجھ سے زیادہ معاوضہ لے چکی ہے۔ پہیہ پیچھے نہیں گھوم سکتا اور یہ ناانصافی ہوگئی ہے۔
اظہر صاحب کا جواب آیا، اچھا۔ میں چپکا ہورہا۔ چند دن بعد دبئی میں تعینات ایچ آر افسر نے مجھے بلایا اور ایک خط میرے حوالے کیا۔ اس میں لکھا تھا کہ آپ کی ترقی کردی گئی ہے اور تنخواہ ڈیوڑھی ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ اس کا اطلاق چھ ماہ پہلے سے ہوگا۔
ایک اور بار ایسا ہوا کہ کمپنی نے ہمیں کچھ ایریئرز دینے تھے لیکن ان میں مسلسل تاخیر ہورہی تھی۔ مجھے شاید دو ڈھائی لاکھ روپے ملنے تھے۔ امی کو کینسر تھا اور وہ اسپتال میں تھیں۔ گھر والوں نے جلدی میں چھوٹی بہن کی شادی بھی طے کردی۔ میں نے نہ کوئی ای میل کی، نہ تقاضا کیا۔ اظہر صاحب کو صرف زبانی صورتحال بتائی۔ اگلے دن پیسے میرے اکاؤنٹ میں تھے۔
سچ ہے کہ جب کوئی باس ڈانٹتا ہے تو سخت غصہ آتا ہے۔ اظہر صاحب ڈانٹتے تھے تو میں دل میں سوچتا تھا، یہ کتنا مہربان شخص ہے۔ اس سے خفا ہونا بھی ظلم ہے۔
آج سولہ اکتوبر ہے اور اس تاریخ کو پوری دنیا باس ڈے مناتی ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اظہر صاحب نے منصوبہ بندی کے تحت باس ڈے پر جنم لیا تھا یا یہ دن طے کرنے والوں نے دنیا کے سب سے بڑے باس کے جنم دن کا کھوج لگایا تھا۔ بہرحال جو بھی صورت ہو، ایک ہی بات ہے۔
سالگرہ مبارک باس!
( زیرنظر تحریر سولفظی کہانیوں کے خالق مبشر زیدی کی وال سے اڑائی گئی ہے، جس میں میڈیا انڈسٹری کے لیونگ لیجنڈ اظہرعباس کے حوالے سے دلچسپ انداز میں بتایا گیا، جسے ہم اپنے قارئین کیلئے مبشرزیدی کے شکریہ کے ساتھ اسے پیش کررہے ہیں۔علی عمران جونئیر)۔۔