تحریر .حماد رضا
ہمارے معاشرے میں ریپ کو لے کر مختلف چہ مگوئیاں کی جاتی ہیں کچھ حلقوں کے نزدیک مرد اس کا ذمہ وار ہے کیوں کہ اس کی صیح بنیادوں پر تربیت نہیں کی گئ اور بعض حلقے عورت کے لباس کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں کرتے نظر آتے ہیں اور عورت کو ہی موردِ الزام ٹہھراتے ہیں پاکستانی معاشرے میں ایک مرد کے زبردستی کسی عورت یا اپنی ہی جنس کے کسی مرد لڑکے یا بچے کے ساتھ تعلقات کو ریپ کا نام دے دیا جاتا ہے ماہرین جرمیات کے حساب سے ریپ کی لا تعداد اقسام ہیں جن میں ریپ کی سب سے اہم قسم میریٹل ریپ یا سپوزل ریپ ہے آسان فہم زبان میں آپ اسے ازدواجی بد سلوکی کا بھی نام دے سکتے ہیں میریٹل ریپ ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کا بھی مسئلہ رہا ہے لیکن دونوں معاشروں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ایک ترقی یافتہ معاشرے کی عورت نسبتاً زیادہ با شعور ہوتی ہے اور اسے اپنے حقوق کا بھی زیادہ علم ہوتا ہے وہاں پر جنسی تعلیم دینے کا رحجان بھی پسماندہ ممالک کی نسبت زیادہ ہے ان سب چیزوں کو مدِ نظر رکھتے ہوۓ ایک مغربی عورت اپنے حقوق کی بہتر طور پر جنگ لڑ لیتی ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے پاکستانی معاشرے میں تو الٹا عورت کو ہی ریپ کا قصور وار تصور کیا جاتا ہے پھر میریٹل ریپ تو بہت دور کی بات ہے پاکستان میں ایک بڑی تعداد ازدواجی زیادتی کا شکار ہوتی ہے لیکن وہ کہے تو کس سے کہے بیوی کا اپنے شوہر سے پردہ نہیں ہوتا کیا وہ اسی شوہر سے بات کرے جو اسے ازدواجی بد سلوکی کا نشانہ بناتا ہے یا اپنے ماں باپ سے بات کرے جس نے اپنی بچی کو بالکل بھی اعتماد نہیں دیا ہوتا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچی ساری زندگی کے لیے اس جنسی درندے کے رہم و کرم پر چھوڑ دی جاتی ہے بہت سی لڑکیاں جن کی ابھی نئ نئ شادی ہوتی ہے وہ ابھی اپنی نئ زندگی کے حوالے سے تحفظات کا شکار ہوتی ہیں شوہر کے ساتھ ذہنی مماثلت قائم ہونے کے لیے ایک وقت درکار ہوتا ہے ایسے حالات میں بہت سے مردوں کی جانب سے بیوی کو بغیر رضا مندی ازدواجی ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے بیوی جو پہلے ہی تحفظات کا شکار تھی اس تشدد کو اپنے لیے اذیت سمجھتی ہے اور وہ تشدد جس کا اسے روز سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس رشتے کا انجام جلد طلاق کی صورت میں سامنے آتا ہے پاکستان میں عورتوں کو اپنے حقوق کو پہچاننا ہوگا اور آواز بھی اٹھانی ہوگی پاکستان میں میریٹل ریپ کے حوالے سے قانون سازی موجود ہے پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ تین سو پچھتر کے تحت اس جرم میں ملوث مجرم کو سزاۓ موت یا پچیس سال کی قید سنائ جا سکتی ہے عورت کو اپنے حقوق کی جنگ خود لڑنی پڑے گی ورنہ یہ معاشرہ اسے یوں ہی ادھیڑتا اور کریدتا رہے گا۔۔(حمادرضا، لیہ)