azadi sahafat par hamla

آزادی صحافت پر حملہ

تحریر: نواز رضا۔۔

وفاقی حکومت نے عجلت میں وفاقی کابینہ کے سرکولیشن کے ذریعے الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون 2016(پیکا) میں آرڈی ننس کے تحت ترامیم لانے کی منظوری حاصل کی اور پھر اتوار کے دن پارلیمان کو بائی پاس کرتے ہوئے صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے آرڈی ننس پر دستخط کروا کر ایک ایسا قانون نافذ کر دیا جسے حکومت کے ہی لاء افسر اٹارنی جنرل نے ’’ڈریکونین لاء‘‘ قرار دیا ہے۔ معلوم نہیں کہ حکومت کو آرڈی ننس جاری کرنے کے پیچھے کیا جلدی تھی؟ وفاقی وزارتِ قانون و انصاف کی تیار کردہ سمری وفاقی وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے ’’خاموشی‘‘ کیساتھ وفاقی کابینہ کے اراکین کو بھجوائی گئی۔ میڈیا کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی البتہ میڈیا پر آرڈی ننس اُس وقت بجلی بن کر گرا جب فواد چوہدری نے ٹویٹ کے ذریعے میڈیا کو آرڈی ننس کے نفاذ کی ’’بری خبر‘‘ سنائی۔ حکومت نے اس قانون میں ترامیم کی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ کے ہفتہ وار اجلاس کا بھی انتظار نہیں کیا۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ حکومت آرڈی ننس جاری کرنے کے لیے بار بار پارلیمنٹ کے اجلاس کی طلبی موخر کرتی رہی۔ حکومت کا موقف ہے کہ الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کے قانون میں الیکٹرانک و ڈیجیٹل میڈیا کے رائے عامہ اور سماجی رویوں پر اثر انداز ہونے کے پیشِ نظر ترامیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیکا ترمیمی آرڈی ننس کے نفاذ کے خلاف نہ صرف ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز متحد ہو چکی ہیں بلکہ پی ایف یو جے (دستور) سمیت تمام صحافتی تنظیموں کی جانب سے شدید ردِعمل کا اظہار کیا گیاہے۔ صدارتی آرڈی ننس کو لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹس میں چیلنج کر دیا گیاہے۔ درخواستوں میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ آرڈی ننس بنیادی حقوق کے منافی اور جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے مترداف ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’’عدالت کو یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ پیکا آرڈی ننس ڈریکونین قانون ہے۔ اسے نیب کے قانون سے بھی بدترین بنا دیا گیا ہے‘‘۔ جو کچھ سوشل میڈیا پر ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں اور اُن کے کارکن ہیں۔ عدالت کے سامنے واحد سوال یہ ہے کہ سیکشن 20کو کیوں نہ کالعدم قرار دیا جائے؟‘‘

صحافتی تنظیموں کا موقف ہے کہ پیکا ترمیمی آرڈی ننس آئین کے آرٹیکل 19سے متصادم ہے، آرڈی ننس نافذ کرکے عدلیہ کی آزادی کو محدود نہیں کیا جا سکتا، ترمیمی آرڈی ننس عدالتی نظام پر دباؤ بڑھانے کیلئے نافذ کیا گیا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ آئین کے علاوہ کسی کو جوابدہ نہیں جبکہ آرڈی ننس کے ذریعے ججوں کو کارکردگی رپورٹ نہ صرف ہائیکورٹ بلکہ سیکرٹری لاء کو بھی پیش کرنے کا پابند بنایا گیا جب کہ ٹی وی چینلوں کی نگرانی کیلئے پیمرا ایکٹ پہلے سے موجود ہے۔ آرڈی ننس کے تحت دو ریاستی اداروں کو اختیارات سے کھیلنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سپریم کورٹ بار نے بھی ’’پیکا‘‘ ترمیمی آرڈی ننس کو مسترد کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پیکا ایکٹ 2016میں ترامیم کر کے ایف آئی اے کو کسی شکایت کی انکوائری کے بغیر گرفتاری کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ صدارتی آرڈی ننس کے تحت کسی بھی فرد کے تشخص پر حملے کی صورت میں قید کی سزا 3سے بڑھا کر 5سال کر دی گئی ہے۔ ترمیمی آرڈی ننس میں شخص کی تعریف میں کوئی بھی کمپنی، ایسوسی ایشن، ادارہ یا اتھارٹی شامل ہے۔ ترمیمی آرڈی ننس کے اجرا کے بعد یہ جرم قابلِ دست اندازی قرار دے دیا گیا ہے۔ کسی کی پرائیویسی اور ساکھ کو نقصان پہنچانا ناقابلِ ضمانت ہوگا۔ اس ترمیم کے تحت ٹرائل کورٹ کو 6ماہ کے اندر فیصلہ کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔ ہائی کورٹ اگرکیس کو جلد نمٹانے میں رکاوٹیں محسوس کرے تو وہ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کرے گی۔ ہر ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ایک جج اور افسروں کو ان کیسز کے لیے نامزد کرے گا۔ اس نئی ترمیم کے تحت ٹرائل کورٹ کو ماہانہ رپورٹ متعلقہ ہائی کورٹ کو بھجوانے کا پابند بنایا گیا ہے۔ اگر ٹرائل کورٹ بروقت کیس نمٹانے میں ناکام رہتی ہے تو حکومت متعلقہ ہائی کورٹ سے کارروائی کے لیے سفارش کر سکے گی۔ پیکا آرڈی ننس کے تحت ایف آئی اے کے اختیارات میں بھی اضافہ کر دیا گیا ہے جو تحقیق کے بغیر کسی بھی فرد کو گرفتار کر سکے گی۔ ایف آئی اے کو بےپناہ اختیارات دینا ہی اس قانون کو ’’ڈریکونین لا‘‘ کا درجہ دینا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے صدارتی آرڈی ننس کی دفعہ 20کے تحت براہِ راست گرفتاریوں کو روک دیا ہے۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ دنیا میں ہتکِ عزت سرے سے فوجداری جرم نہیں۔ یہ قانون ہونا ہی نہیں چاہیے۔ زمبابوے، یوگنڈا اور کانگو ہتکِ عزت کو فوجداری قانون سے نکال چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بادی النظر میں اِن ترامیم کے ذریعے ہتکِ عزت کو مزید جابرانہ بنادیا ہے۔ عدالت نے حکم جاری کیا ہے کہ ایف آئی اے ایس او پیز کے تحت اختیارات استعمال کرے اور جس شخص کے خلاف شکایت درج کی گئی ہو اس شخص کو صفائی کا موقع دیے بغیر اور انکوائری مکمل ہونے تک گرفتار نہیں کرے گی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈی ننس کے تحت حکومت کو گرفتاریوں سے روک دیا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو 10مارچ 2022تک مزید دلائل دینے کی مہلت دے دی ہے۔ چیف جسٹس اطہر من للہ نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اوراپنے ریمارکس میں کہا کہ اظہارِ رائے پر قدغن کی وجہ سے آدھا ملک ہم سے چلا گیا۔ عدالت کیوں نہ پیکا ایکٹ کا سیکشن 20 کالعدم قرار دے؟

عدالت نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی درخواستیں خارج کردی ہیں اور کیس کی سماعت 10مارچ تک کیلئے ملتوی کردی ہے۔ پیکا آرڈی ننس پر میڈیا اور حکومت میں ڈیڈ لاک پایا جارہا ہے۔ میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی وفاقی وزارت اطلاعات و نشریات کے طلب کردہ اجلاس سے واک آئوٹ کر چکی ہے۔ حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور ’’ڈریکونین لاء‘‘ ختم نہ کیا تو صحافتی تنظیموں اور حکومت کے درمیان تعلقات متاثر ہوں گے۔(بشکریہ جنگ)۔

chaar hurf | Imran Junior
chaar hurf | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں