خصوصی رپورٹ۔۔
کراچی میں آزادی صحافت پر ایک اور حملہ، جی این این۔ ٹی وی سے وابستہ رپورٹر راشد صدیق ” قرار“ کے خلاف من گھڑت مقدمہ درج کردیا گیا۔کے ایم سی ہیڈ آفس میں کرونا وائرس میں مبتلا مریض اور کے ایم سی افسران کے درمیان ہونے والے واقع کو راشد صدیق نے رپورٹ کیا تھا جس پر کے ایم سی افسران نے جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ درج کرایا۔۔ دریں اثناکرائم رپورٹر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے ممبر راشد قرار کے خلاف مقدمے کی تحقیقات کیلئے سینئر ممبر جاوید چودھری ، راجہ طارق اور نعمان رفیق پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ۔ یہ کمیٹی مدعی اور راشد قرار کا موقف لے گی اور تمام تر حقائق پر مبنی تفصیلات کی روشنی میں معاملے کے سدباب کے لئے اپنا بھرپور کرادر ادا کرے گی خواہ اس حوالے سے اعلٰی حکام سے ملاقاتیں ہوں یا کسی بھی قسم کے احتجاج کی کال بھی شامل ہوسکتی ہے۔۔ کمیٹی ممبران کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ مزید اراکین کی خدمات بھی اس کمیٹی میں اپنے ہمراہ شامل کرسکتے ہیں۔ترجمان سی آر اے کا کہنا ہے کہ اپنے کسی بھی ممبر کے ساتھ قطعی کوئی ناانصافی نہیں ہونے دیں گے۔۔
کراچی یونین آف جرنلسٹس نے سینئر صحافی اور کراچی یونین آف جرنلسٹس کے رکن راشد قرار کیخلاف سٹی کورٹ تھانے میں جھوٹے مقدمے کے اندارج کی سخت الفاظ میں شدید مذمت کی ہے اور اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیتے ہوئے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر ایف آئی آر کی واپسی کا حکم دے کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدر نظام الدین صدیقی اور جنرل سیکریٹری فہیم صدیقی سمیت مجلس عاملہ کے تمام اراکین کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کسی واقعے کو رپورٹ کرنا صحافی کا کام ہے راشد قرار نے کے ایم سی ہیڈ آفس میں پیش آنے والے ایک واقعے کو من و عن رپورٹ کیا اس پر مقدمے کا اندراج آزاد صحافت کو دبانے کی کوشش ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک طرف کے ایم سی میں پیش آنے والا واقعہ بیڈ گورننس کی مثال ہے جہاں ملازمین کئی کئی ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں اور اب انتقامی کاروئیوں پر مجبور ہوگئے ہیں اور دوسری طرف ایسے واقعات کی رپورٹنگ پر صحافیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے کے یو جے کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مدعی مقدمہ نے ایف آئی آر کیلئے دیے گئے بیان میں یہ کہیں واضح نہیں کیا کہ سینئر صحافی راشد قرار نے کس قانون کی خلاف ورزی کی ہے راشد قرار ایک سینئر صحافی ہیں جن کا کام ہی بلدیاتی معاملات کو رپورٹ کرنا ہے یہ کہنا کہ انہوں نے احتجاج کرنے والے کے ایم سی کے ملازم شہزاد انور کی مدد کی، جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ہے کے یو جے نے اس بات پر بھی حیرت اور افسوس کا اظہار کیا ہے کہ مدعی مقدمہ جمیل فاروقی کا بیان قابل دست اندازی پولیس نہ ہوتے ہوئے بھی پولیس نے جان بوجھ کر ایک سینئر صحافی کو ملوث کرتے ہوئے جھوٹا مقدمہ درج کیاکے یو جے نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جس طرح کیپٹن صفدر اور مریم نواز کیخلاف درج مقدمے کو سی کلاس کیا گیا اسی طرح ایک صحافی کیخلاف درج اس جھوٹے مقدمے کو بھی سی کلاس کیا جائے اور مدعی مقدمہ جمیل فاروقی کیخلاف جھوٹا مقدمہ درج کرانے کی دفعات سمیت بیڈ گورننس کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے کیونکہ وہ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرنے سے قاصر ہیں جس کی وجہ سے کے ایم سی کے ملازمین میں اشتعال پایا جاتا ہے اور وہ انتقامی کاروئیوں پر اتر آئے ہیں ۔ کے یو جے نے سندھ حکومت پر واضح کیا ہے کہ اگر فوری طور پر مقدمہ واپس نہیں لیا گیا تو کراچی یونین آف جرنلسٹس احتجاج کا راستہ اپنانے پر مجبور ہوگی۔۔(خصوصی رپورٹ)