خصوصی رپورٹ۔۔
پنجاب یونیورسٹی اسکول آف کمیونیکیشن اسٹڈیز کے زیر اہتمام عالمی یوم آزادی صحافت پر ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ آزادی صحافت جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی سے مشروط ہے، پاکستان میں صحافت کی آزادی کے لئے صحافتی تنظیموں کو متحد ہو کر جنگ لڑنا ہو گی۔ آزادی صحافت جمہوریت اور عدلیہ کی آزادی سے مشروط،ایک صحافی پر حملہ سب پر تصور کیا جانا چاہئے۔ تحقیقاتی صحافت کے بغیر آزادی اظہار رائے ممکن نہیں، جرنلسٹس پروٹیکشن بل روکنا پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ تمام صحافی تنظیموں کو ملکر ایک لائحہ عمل بناناہوگا تاکہ آزادی صحافت کا اصل ہدف حاصل کیا جاسکے۔ میڈیا پر بہت دباؤ ہے،مذہبی، سیاسی،کالعدم تنظیمیں سب اپنے خلاف کچھ نہیں سننا چاہتے۔ ویبنار میں پنجاب یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلرپروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر، ڈائریکٹر سکول آف کمیونی کیشن اسٹڈیز پروفیسر ڈاکٹر نوشینہ سلیم، شعبہ صحافت کے معروف اساتذہ ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر شفیق جالندھری، ڈاکٹر مجاہد منصوری، سینئر صحافی سلمان غنی، حامد میر، صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری، فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے صدر رانا عظیم،ڈائریکٹر پی یو ٹی وی وویبینار کوآرڈینیٹر ڈاکٹر شبیر سرور اور طلباء و طالبات کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ویبنار سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا کہ پاکستان میں حقائق تک رسائی کی آزادی حاصل نہیں ہے اور تحقیقاتی صحافت کو فروغ دیئے بغیر آزادی اظہار رائے ممکن نہیں۔ سیاسی جماعتیں اور صحافتی تنظیمیں آزادی صحافت کے لئے کردار ادا کریں۔ ڈاکٹر مجاہد منصوری نے کہا کہ میڈیا کو جس قدرآزادی دستیاب ہے اس کے ثمرات ابھی عوام تک نہیں پہنچ رہے۔میڈیا کا کام عوامی رویوں میں تبدیلی لانا بھی ہے جس کے لئے یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت کو اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔ سینئر صحافی سلمان غنی نے کہا کہ پاکستان میں سیاستدان اپوزیشن میں ہوتے ہوئے صحافیوں کے ساتھ ہوتے ہیں اقتدار میں آکر بدل جاتے ہیں۔پاکستانی میڈیا پر بہت دباؤ ہے تاہم ہمیں قومی مفاد کو بھی عزیز رکھنا ہے، اداروں کی بھی تکریم کرنی ہے اورانسانی حقوق اور دیگر مسائل بھی اجاگر کرنے ہیں۔صحافتی آزادی کے لئے صحافتی تنظیموں کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔پاکستان کا میڈیا آزاد و خود مختار ہوگا تو ملک ترقی کرے گا۔ حامد میر نے کہا کہ صحافیوں پر قومی مفاد اور حب الوطنی کے نام پر پابندیاں لگتی ہیں۔ جرنلسٹس پروٹیکشن بل روکنا پاکستان کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان میں آزادی صحافت پاکستانی کی معاشی ترقی سے بھی وابستہ ہے اگر رواں سال جرنلسٹ پروٹیکشن بل منظور نہ کیا گیا تو یورپی یونین جی ایس پی پلس سٹیٹس سے خارج کر سکتی ہے جس سے پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی چالیس فیصد ایکسپورٹ متاثر ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ آزادی صحافت ریاست اور جمہوریت کے مفاد میں ہوتی ہے ریاست کا چوتھا ستون مضبوط نہیں ہو گا تو ریاست کمزور رہے گی۔ آزادی صحافت کا استعمال ذمہ داری سے ہونا چاہئے تاہم انٹرنیٹ پر خوامخواہ کی پابندیوں سے پاکستان میں فارن انوسٹمنٹ نہیں آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور بنگلہ دیش میں آزادی صحافت کے لئے زیادہ خطرات ہیں۔تاہم پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں چالیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔مالکان کو جیل میں ڈالیں گے تو صحافی کب تک اصولوں پر کام کریں گے؟ صحافت کی آزادی کے لئے صحافتی تنظیموں کا متحد ہونا ضروری ہے۔ ڈاکٹر سلیم مظہر نے کہا کہ اسلامی دنیا میں پاکستان کو جو اہم مقام حاصل ہے اس کا سہرا صحافیوں کے سرہے۔ پاکستان کے صحافی مفاد عامہ کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے آزادی صحافت کو آگے بڑھنا چاہیے اسی میں ہماری کامیابی ہے۔ ارشد انصاری نے کہا کہ تمام صحافی تنظیموں کو مل کر ایک لائحہ عمل بناناہوگا تاکہ آزادی صحافت کا اصل ہدف حاصل کیا جا سکے۔ پاکستان کو صحافیوں کے لئے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔آج کل صحافت پر بہت قدغن لگائی گئی ہیں۔صحافی اور معیشت کا آپس میں گہراتعلق ہے حکومتی قدغنوں کے باعث بے روزگار ہونے والے صحافی اپنے چینلز بنا کر بیٹھ گئے ہیں لیکن اب ان کے لئے بھی راستے بند کئے جا رہے ہیں۔ رانا عظیم نے کہا کہ ایک صحافی پر حملہ سب پر حملہ تصور کیا جانا چاہئے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔