تحریر: مطیع اللہ جان
بہت کم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صحافت اور میڈیا کی آزادی ایک صحت مند معاشرے کے لئے آکسیجن کا کردار ادا کرتی ہیں۔ آزاد صحافت شہریوں کو باخبر رکھتی ہے تاکہ وہ اپنی نجی و سماجی زندگی میں بہتر فیصلے کر سکیں۔ بڑے سے بڑے فوجی آمر یا آمرانہ ذہن رکھنے والوں کی بھی خواہش ہوتی ہے کہ انکے بچے اپنی سوچ اور بول چال میں آزادیٔ اظہار کا کھل کر مظاہرہ کریں۔اپنے گھروں میں جو آزادی ایسے بچوں کو نصیب ہوتی ہے، بدقسمتی سے پاکستان کے غریب عوام کو بول چال کی وہ آزادی نہیں دی جاتی۔ اسکول ، کالج اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم یہ بچے اپنی اعلیٰ تعلیم کے باعث آمریت اور آمرانہ ذہنیت کے مقبول مگر غیر قانونی یا غیر مقبول مگر قانونی فیصلوں پر بھی سوال اٹھائیں تو ان پر فخر کیا جاتا ہے مگر وہی سوال کوئی صحافی یا تجزیہ کار اٹھائے تو اسے ملک دشمن یا غدار قرار دینے کی مہم چلائی جاتی ہے۔
کسی زمانے میں محض ایک ریاستی ٹیلی ویژن کے گیٹ پھلانگ کر اور اس پر قبضہ کر کے تبدیلی لانا ممکن تھا مگر اب نہیں۔ کارگل کے معرکے اور بھارتی مسافر طیارے کے اغواء جیسے واقعات پر بھارتی ٹیلی ویژن میڈیا نے جو کچھ پاکستان کے ساتھ کیا اسکے جواب میں ایک جنرل اور فوجی آمر کے دماغ میں ایک ہی ترکیب آئی کہ بھارتی پراپیگنڈے کا مقابلہ لاتعداد پاکستانی ٹیلی ویژن چینلوں کے پراپیگنڈے سے کیا جائے۔ یہ وہ وقت تھا جب بھارتی نیوز چینلز پاکستان میں غیر قانونی کیبل نیٹ ورکس کے ذریعے جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہے تھے جن کو بند کرنے اور ان کا پاکستانی متبادل فراہم کرنے کے علاوہ ایک فوجی آمر کے پاس کوئی راستہ نہ بچا تھا۔بوتل سے نکلے نجی ٹی وی چینلوں کے اس جن کو اب واپس بوتل میں بند کرنا تو ناممکن تھا ، اس لئے اس جن کو دوسرے طریقوں سے قابو کرنے کے لئے دھمکیوں، بندشوں اور گولیوں کا سہارا بھی لیا گیا اور یہ پالیسی محض جنرل مشرف کی نہیں تھی۔
حیات اللہ خان کا قتل ہو یا سلیم شہزاد کا اور اسی طرح حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہو یا دوسرے صحافیوں پر، بڑے سے بڑے عدالتی کمیشن کو بھی ان واقعات کی تحقیقات کے دوران اپنی اوقات کا اندازہ ہو گیا تھا۔جب ایسے اندوہناک واقعات کا کوئی منطقی اور قانونی نتیجہ نہیں نکلا تو نجی ٹی وی چینلوں کا جن بوتل میں واپس جائے بغیر ہی لائن پر آ گیا۔آج جب بیشتر صحافیوں اور میڈیا کے اداروں کی اس لائن کے مطابق صفیں سیدھی ہو چکی ہیں تو انکی جان کو لاحق خطرات میں بھی واضح کمی آئی ہے۔ صحافیوں کے تحفظ سے متعلق بین الاقوامی تنظیم “کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس” (سی پی جے) کی نئی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کے قتل اور ان پر تشدد کے واقعات میں کمی آئی۔ بات سمجھنے کی یہ ہے کہ اس کمی کی وجہ ملک میں آزادیٔ صحافت کی صورتحال میں بہتری نہیں بلکہ ابتری کی صورتحال ہے۔ پچیس جولائی کے انتخابات سے پہلے ہی جمہوریت اور سویلین بالادستی کی بات کرنے والے نیوز میڈیا کے اداروں کا ناطقہ بند ہونا شروع ہو گیا تھا۔ سرکاری اشتہارات میں اچانک کمی اور انکے پرانے بقایاجات کی ادائیگیوں میں اچانک تعطل ، توہین عدالت قانون کا میڈیا پر بار بار اطلاق اور اس حوالے سے پیمرا پر دباؤ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ تھا۔
سرکاری اشتہارات کا عوامی مفاد کی بجائے سیاسی مقاصد کے لئے بلاجواز اور بے دریغ استعمال یقینا ًمناسب نہیں اور نئی حکومت کی طرف سے اس پر نئی پالیسی لانا بھی غلط نہیں ہو گا۔تاہم پرانی پالیسی کو بغیر کسی انتباہ یا مناسب وقت کے اچانک بدل دینا کچھ سیاسی و غیر سیاسی قوتوں کے ہاتھ تو مضبوط کر سکتا ہے مگر جمہوری عمل کو نہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سویلین حکومتوں کی سرکاری اداروں کے اشتہارات پر پابندی جمہوریت اور سویلین بالادستی کا پرچار کرنے والے اداروں پر تو بجلی بن کر گر رہی ہے۔ دوسری طرف کچھ سرکاری ادارے ایسے ہیں جنہوں نے سرکاری اراضی اور سرکاری وسائل سے اربوں روپوں کی کاروباری ایمپائر کھڑی کر رکھی ہیں۔
بدقسمتی سے گذشتہ دس سال کے دوران سویلین حکومتیں ایسے ہی کاروباری اداروں کی پراپیگنڈہ مہم کا جواب دینے کے لئے سرکاری اشتہارات پر انحصار کرتی تھیں اور یہ حکومتیں ایک لحاظ سے جمہوریت کے مدعی کا کردار ادا کر رہی تھیں۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد اب جبکہ عسکری اور سیاسی قیادت یک زبان ہو کر ایک صفحے پر ہونے کا اعلان کر رہی ہے تو جمہوریت کا مدعی سست پڑتا نظر آ رہا ہے۔ ایسے میں صحافت کا گواہ کیا چستی دکھائے گا۔ جمہوریت اور سویلین بالادستی تو وہ الفاظ ہیں جو موجودہ حکومت کے لئے اپنے بیانیے میں شامل کرنا بھی گناہ ہے۔ حکومت کی نئی اعلان شدہ پالیسی کے مطابق اب تفریحی میڈیا کو خبری میڈیا پر ترجیح دی جائے گی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب بھی جمہوریت بحالی کی تحریک سڑکوں پر آتی تھی تو پاکستان ٹیلی ویژن پر چوبیس گھنٹے کی طویل ٹرانسمیشن میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی اپنے ہارمونیم سمیت جلوہ گر ہو جاتے تھے تاکہ لوگ جمہوریت بحالی تحریک کے لئے سڑکوں پر نکلنے کی بجائے گھروں میں بیٹھ کر تفریح حاصل کرسکیں۔شائدموجودہ حکومت بھی اب سنجیدہ صحافتی میڈیا کے ساتھ تفریح کرنے کا پروگرام بنا چکی ہے۔ پیمرا قوانین میں میڈیا مارکیٹ کی تفصیلی جائزہ رپورٹ کے تقاضے کو پورا کئے بغیر ہی جس رفتار سے مالدار پارٹیوں کو ٹی وی لائسنس دئیے جا رہے ہیں اس کے بعد ملک میں سرکاری اطلاعات و نشریات ہی رہ جائیں گی اور صحافت کا دور دور تک نشان نہ ہو گا۔لگتا ہے جمہوریت اور سویلین بالادستی کا راگ الاپنے والے انشاء جی کو اپنے ہارمونیم اور طبلے سمیت اس ملک سے کوچ کرنا پڑے گا۔
اب تو یوں لگتا ہے کہ سویلین حکومت اور فوج کے علاوہ عدالتیں ، پیمرا، نیب اور بیشتر دوسرے ادارے اور سیاسی جماعتیں بھی ایک ہی صفحے پر آ گئی ہیں۔ اگر کوئی اس صفحے پر نہیں ہے تو چند بڑے میڈیا کے ادارے اور ایک سیاسی جماعت جس نے دیر سے سہی مگر جمہوریت کے لئے آواز اٹھانے کا درست فیصلہ کیا۔ جو صحافی یا میڈیا کے ادارے اس سرکاری صفحہء ہستی پر نہیں ہوں گے تو ان کو مٹانے کے لئے دوسرے ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ چند صحافی اینکروں نے نئے ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق کچھ گولیاں کھا کر اپنی صحت بنا لی ہے جبکہ دوسرے ابھی بھی اپنی پرانی سوچ اور رہن سہن پر بضد ہیں۔ اب جمہوریت اور سویلین بالادستی کی باتیں کرنے والے معلوم افراد و ادارے کہاں جائیں گے۔اوپر سے اشتہاری کمپنیوں کے کچھ مالکان کی بذریعہ عدالت گرفتاری اور ان پر مقدمات کی سماعت و فیصلے میں تاخیر نے ان ادائیگیوں کو بھی روک دیا ہے جن کے سہارے چند میڈیا کے ادارے چل رہے تھے۔
کیا پاکستانی صحافیوں نے محض زندہ رہنے کے لئے ہتھیار ڈال دئیے؟ اور اگر حالیہ برسوں میں کوئی صحافی قتل نہیں ہوا تو کیا اس کا مطلب آزادی ٔ صحافت کی صورتحال میں بہتری ہے؟ جب کوئی ہتھیار ڈال دے تو اس کو مارنا بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں حالیہ برس میں کسی صحافی کی تو نہیں مگر صحافت کی لاش ضرور گری ہے۔(بشکریہ نوائے وقت)۔۔