تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،آزادی نسواں کا جب ذکر ہوتا ہے سخت گیر قسم کے مرد حضرات اپنی ’’زوجاؤں‘‘ کو کہتے ہیں۔۔ ’’نس۔واں‘‘۔۔۔ نسواں کی آزادی اب مارچ سے نتھی ہوچکی ہے، ہر سال آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین منایاجاتا ہے، پاکستان میں بھی اس کا کافی شور برپا رہتا ہے۔ اس تحریر کے وقوع پذیر ہونے کے دوران دنیا بھر میں یوم خواتین منایاجارہا ہے، لیکن جب آپ اسے پڑھیں گے تو سارا جوش،ولولہ، نعرے اور تعزیئے ٹھنڈے ہوچکے ہوں گے۔۔۔مارچ کے مہینے میں بچپن سے ہی ’’مارچ‘‘ کا بڑا تذکرہ رہتا تھا۔۔بچپن میں تئیس مارچ کو پریڈ مارچ کا شدت سے انتظار رہتا تھا اور ٹی وی کے سامنے مورچہ لگالیتے تھے۔۔ ہمارے بچپن میں ضیا ء دور چل رہا تھا، اور ضیاء صاحب چونکہ صدر ہونے کے ساتھ ساتھ فوج کے سربراہ بھی تھے اس لئے پریڈ کا اچھا خاصا انتظام کیاجاتا تھا۔۔ویسے سنا ہے اس بار بھی پریڈ کا انتظام کیاگیا ہے۔ پھر ضیاکے بعد جمہوریت بحال ہوئی تو حکومتوں کو ہٹانے کے لئے مارچ میں مارچ کی اصطلاح سامنے آئی، اور یہ سلسلہ آج تک بفضل تعالیٰ جاری و ساری ہے۔۔اور بلاول بھٹو کا لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہوگا۔۔ویسے اس بار مارچ اس لحاظ سے بھی دلچسپ ہے کہ اس ماہ، زنانہ،مردانہ،درمیانہ اور فوجی مارچ ہورہے ہیں۔۔
بات ہورہی تھی خواتین مارچ کی۔۔ یہ مارچ آٹھ مارچ کوکیاجاتا ہے جس میں چند روشن خیال ، آزاد خیال اور مردم بیزار خواتین اپنے ’’حقوق‘‘ کے لئے میدان میں نکلتی ہیں اور ہر سال ایک نیا شوشا سامنے آتا ہے جس سے یہ مارچ موضوع بحث بن جاتا ہے۔۔ورلڈ اکنا مک فورم کی گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ 2018 کے مطابق خواتین کو Empower کرنے میں149 ملکوں میں پاکستان 148 ویں نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان صنفی لحاظ سے معاشی ناہمواری میں 146 ویں نمبر، تعلیمی حصول میں 139 ویں نمبر اور صحت کے حقوق کے حوالے سے 145 ویں نمبر پر ہے۔عورتوں کے مسائل تھے، ہیں اور رہیں گے۔ یہ مسائل ویسے ہی ہیں جیسے مردوں کے مسائل ہوتے ہیں لیکن عورتوں کا ایک بہت بڑا مسئلہ مرد بھی ہیں۔عورت مارچ کی شرکاء کے چہروں کی طرف دیکھیں تو بے فکری ہی بے فکری نظر آتی ہے۔ ان لوگوں کی طرح جن سے گرمی میں کام نہیں ہوتا۔ سردی میں بستر سے باہر نکلنے کو جی نہیں کرتا اور موسم خوش گوار ہو تو کس کافر کا کام میں دل لگتا ہے۔۔شہر کی مڈل کلاس خواتین، دیہات کی غریب محنت کش خاتون کبھی عورت مارچ کا حصہ نہیں رہیں۔۔ کیوں کہ انہیں فرصت ہی نہیں ملتی اپنی روزمرہ ’’روٹین‘‘ سے۔۔ جن کے پاس راوی چین ہی چین، عیش و آرام لکھتا ہے انہی کو دیگر خواتین کی فکر لاحق ہوتی ہے اور پھر وہ ملک بھر کی خواتین کی آواز بننے کا دعویٰ بھی کرتی ہیں۔۔عورتوں کے حقوق کی دعویدار ان خواتین کے گھروں کی صفائی کے لئے ماسیاں ہوتی ہیں۔۔آپ صرف ان ’’ماسیوں‘‘ کا انٹرویو کرلیں تو آپ کو لگ پتہ جائے گا کہ عورت مارچ میں عورتوں کے حقوق کے لئے گلے پھاڑ کر نعرے لگانے والی خواتین کا اصل چہرہ کیا ہے؟۔۔
ایک لمحہ کے لئے سوچیں اگر خواتین مارچ میں عورتیں گنجی ہوجاتیں، کتنی بدصورت نظر آتیں؟؟ اگر عورتوں کی مونچھیں نکل آئیں تب بھی وہ دیکھنے لائق نہیں رہتیں؟ ااگر عورتوں کے سکس پیک ایبس نکل آئیں،تب بھی انہیں کوئی نہیں سراہتا، کوئی تعریف نہیں کرتا۔۔پھر خواتین کی جانب سے دعویٰ یہ سامنے آتا ہے کہ عورتیں خوب صورت ہوتی ہیں۔۔ اب بات کرتے ہیں مردوں کی۔۔یعنی لڑکوں کی۔۔ اگر لڑکے کلین شیو ہوں تو خوب صورت لگتے ہیں، داڑھی رکھیں پھر بھی جچتے ہیں، گنجے ہوجائیں تب بھی برے نہیں لگتے۔بڑے بال رکھیں، پھر بھی خوبصورت لگتے ہیں، درمیانے بال ہیں، پھر بھی خوبصورت نظر آتے ہیں۔اگر لڑکوں کو سکس پیک ایبس آ جائیں تو خوبصورت۔۔اور اگر چھریرا بدن ہو تو پھر بھی سمارٹ۔۔یعنی عورت کا حسن بس ’’دکھاوا‘‘ ہے، بیوٹی پارلرز اور میک اپ کا کمال ہے، مردحضرات کو اللہ نے قدرتی حسن سے نوازا ہوا ہے۔انہیں کسی بیوٹی پارلر کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔ مرد کی خوبصورتی،ایک ابدی سچائی ہے جو ہر حال میں چھائی رہتی ہے۔باباجی فرماتے ہیں۔۔سب لڑکیاں دل کی بُری نہیں ہوتیں،کچھ کا دماغ بھی خراب ہوتا ہے۔۔کھانے کی میز پر خاوند نے اپنی اہلیہ سے کہا، تم اگر انڈیا میں ہوتی تو وہاں کے لوگ تمہاری پوجا کرتے۔۔ بیوی نے خوش ہوکر کہا، سچی ، کیا میں حُسن کی دیوی لگتی ہوں۔۔ خاوند نے پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا، نہیں یار،گائے جیسی لگتی ہو۔۔بہت ہی پرانی بات ہے ، شادی شدہ آدمی سے کسی نے پوچھا کہ آپ شادی سے پہلے کیا کرتے تھے۔۔ٹھنڈا سانس لے کر مسکین نے کہا کہ۔۔جو جی چاہتا تھا۔۔ ویسے شادی بیاہ کے معاملات میں جہاں خوب صورتی کو معیار بنایاجاتا ہے وہیں لڑکی کا قد کاٹھ بھی دیکھا جاتاہے، ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔۔شادی چھوٹے قد والی سے ہو یا بڑے قد والی سے۔۔ ماشااللہ دونوں کی زبان تو لمبی ہوتی ہی ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کی ابھی تک شادی نہیں ہوئی۔۔ منگنی کے بعد جیسے ان کی شادی پر مکڑی کا جالا سے پڑگیا ہے۔۔ منگنی شدہ لوگوں کا حال اس گھر جیسا ہے جہاں شدید سرد موسم کے لئے گیزر تو لگاہوتا ہے لیکن اس علاقے میں پورا سال گیس نہیں آتی۔۔۔جدید ریسرچ بتاتی ہے کہ خوبصورتی کی اہمیت نہیں ہوتی ، خوب صورت خواتین کے شوہر جلد مر جاتے ہیں ، لیکن باباجی کا کہنا ہے۔۔ بدصورت خواتین کے شوہر روز مرتے ہیں۔۔۔
مصری دانشور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ شادی چھوٹے قد کی عورت سے کرنی چاہیے کیونکہ مصیبت جتنی چھوٹی ہو اتنی ہی بہتر ہے۔سندھی کہاوت ہے کہ خوبصورت لڑکی پیدا ہوتے ہی آدھی شادی شدہ ہوتی ہے۔ باباجی کا تو یہ کہنا ہے کہ ۔۔صرف پانچ فیصد خواتین خوب صورت ہوتی ہیں باقی اپنی محنت سے بنتی ہیں۔۔میک اپ اور خواتین کا ساتھ چولی دامن کا ہوکررہ گیا ہے۔۔اور آسان اس طرح سمجھا دیتے ہیں کہ میک اپ کی مثال گاڑی میں پٹرول کی سی ہے، پٹرول ہوگا تو گاڑی چلے گی، نہیں ہوگا تو نہیں چلے گی۔۔ویسے ایک لمحہ کے لئے سوچیں اگر۔۔ میک اپ ختم ہوگیا تو لڑکیوں کا پتہ کیسے چلے گا کہ کون ہے۔ پہچان کیسے ہوگی؟؟ ویسے دیکھا جائے تو یہی وہ اوزار ہیں جن سے زمینی حقیقت چھپائی جاتی ہے۔۔آپ کبھی نوٹ کیجئے گا۔۔ کسی دعوت میں ایک حسین عورت کے گرد چند مرد جمع ہو جائیں تو وہ’’پارٹی کی جان‘‘کہلاتی ہے، اور اسی دعوت میں ایک خوبرو مرد کے گرد چند خواتین موجود ہوں تو اسے ’’خبیث بڈھا فلرٹ ’‘‘کہا جاتا ہے۔۔یہ کہاں کی اخلاقیات ہیں کہ اپنے پیچھے آنے والی خاتون کے لئے مرد دروازہ کھول کر نہ رکھے تو بدتہذیب ہے اور تھام کر رکھے تو ’’ٹھرکی‘‘۔۔ کہتے ہیں کہ ایک کامیاب مرد وہ ہے جو اپنی بیوی کے خرچ سے زیادہ کماتا ہو اور ایک کامیاب عورت وہ ہے جو ایسا خاوند تلاش کر لے۔۔باباجی کاکہنا ہے کہ ۔۔عورت کو خوش کرنا ہے تو اسے پیار دیا جائے،جینے مرنے کی قسمیں کھائی جائیں،شاپنگ کرائی جائے،باہر کھانا کھلایا جائے اور۔۔مرد کو خوش ہونے کے لیے پاکستان کا کرکٹ میچ جیتنا بہت ضروری ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔زندگی چار دن کی ہے تو ٹیسٹ میچ پانچ دن کے کیوں رکھے جاتے ہیں؟ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔