تحریر: حامد میر۔۔
انسانی حقوق کے تحفظ اور جمہوریت کے استحکام میں عدلیہ کا کردار‘‘ یہ موضوع بہت اہم تھا اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موضوع پر تقریربھی بہت اچھی کی۔ وقت کی کمی کے باعث انہوں نے اپنی لکھی ہوئی تقریر مختصر کردی۔ وہ تقریر ختم کرکے سٹیج سے نیچے آئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ان کا تحریری مقالہ مجھے مل سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ منتظمین سے یہ مقالہ حاصل کرلیں۔لہٰذا میں نے یہ مقالہ منتظمین سے حاصل کرلیا۔ یہ نومبر 2021ء میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس کا قصہ ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے اس مقالے میں آزادی صحافت کو درپیش خطرات کابھی ذکر کیا تھا۔ ان دنوں ارباب اختیار کی ناراضی کے باعث مجھ پر پاکستانی میڈیا کے دروازے بند تھے لیکن عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں آزادی صحافت پر ایک سیشن میں مجھے اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ میںنے اپنےسیشن کے آغاز سے قبل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لکھے ہوئے سولہ صفحات پڑھ ڈالے اور مجھے ایسا لگا کہ وہ میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کو خلاف آئین قرار دے کر مسترد کر رہے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ 2021ء میں عمران خان پاکستان کے وزیراعظم تھے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان کے اختلافات ابھی منظر عام پر نہیں آئےتھے۔ 2019ء میں عمران خان کی حکومت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کیا تھا اور میڈیا کو ان کی کردار کشی کے لئے بعض طاقتور لوگ موادبھیجا کرتے تھے۔ میڈیا اورسول سوسائٹی کے ایک بڑے حصے نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف اس ریفرنس کو مسترد کردیا تھااور اسی لئے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں انہیں بڑی پذیرائی مل رہی تھی۔جب صحافت پر پابندیوں کے خلاف سیشن شروع ہوا تو مجھے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ حاضرین میں بیٹھ کر مقررین کو بہت غور سے سنتے نظر آئے۔ حکومت اور کچھ ریاستی ادارے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شرکت پر خوش نہیں تھے۔ اس وقت بہت کم لوگوں کو یقین تھا کہ قاضی صاحب کبھی چیف جسٹس بن پائیں گے۔
دوہزار تئیس میں قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بن گئے۔ کچھ عرصہ قبل انہیں دوبارہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تو انہوں نے معذرت کرلی۔ اپریل 2024ء میں منعقد ہونے والی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بھی آزادی صحافت کو درپیش خطرات کے بارے میں ایک سیشن رکھا گیا تھا اور اس سیشن کے دوران میری نظریں قاضی فائز عیسیٰ کو تلاش کرتی رہیں۔ مجھے ان کا 2021ء کا مقالہ یاد آ رہا تھا جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ اس مقالے میں انہوں نے کہاتھا کہ 2018ء میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 139 واں تھا جو 2021ء میں 145 پر چلا گیا۔ پاکستان کی تنزلی کا ذکر انہوں نے تشویش بھرے انداز میں کیا تھا۔ پچھلے تین سال میں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کی رینکنگ میں اتار چڑھائو انتہائی قابل غور ہے۔ 2022ء میں پاکستان اس رینکنگ میں مزید نیچے گرا اور 157 ویں نمبر پر چلا گیا۔ 2023ء میں یہ رینکنگ کچھ بہتر ہوئی اور 150 پر آگئی۔ 2024ء میں پاکستان کی رینکنگ ایک دفعہ پھر زوال کا شکار ہوئی اور 152 ویں نمبر پر آگئی۔ عرض یہ کرنا تھا کہ 2021ء میں آزادی صحافت کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا 145 واں نمبر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لئےبہت تشویش کا باعث تھا۔ آج 2024ء میں جب وہ خود چیف جسٹس بن چکے ہیں تو پاکستان 152ویں نمبر پر ہے۔ 2021ء میں اپنے مقالے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رول آف لا (قانون کی بالادستی) کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کے 130 ویں نمبر پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا کیونکہ پاکستان ناصرف بھارت بلکہ بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی نیچے تھا۔ اب جبکہ قاضی صاحب خود چیف جسٹس بن چکے ہیں تو رول آف لا کی عالمی رینکنگ میں پاکستان کی پوزیشن میں کوئی بہتری نہیں آئی۔
آج کل کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کا اصل مسئلہ معاشی استحکام ہے، پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کےلئے ہمیں چین اور سعودی عرب کو ماڈل بنانا چاہیے جہاں ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کو نہیں بلکہ معاشی استحکام کو ترجیح دی جاتی ہے اوراس ترجیح کے تحت آزادی اظہار پر موثر کنٹرول قائم کیا گیا ہے۔ چین اور سعودی عرب سے دوستی کی اپنی اہمیت ہے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے معزز جج صاحبان تو بار بار قائد اعظمؒ محمد علی جناح کا حوالہ دیتے ہیں جو صحافت پر پابندیوں کے مخالف تھے۔ میں ایک دفعہ پھر قاضی صاحب کے 2021ء کے مقالے کا حوالہ دینے کی جسارت کروںگا جس میں بار بار کہا گیا کہ قائداعظمؒ آزادی صحافت کے قائل تھے۔ اس مقالے میں ایک حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کاحوالہ دے کر کہا گیا کہ بہترین جہاد جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ اس مقالے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےسپریم کورٹ کے دو فیصلوں کے حوالے سے کہا پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کو حکومت کے کنٹرول اور پریشر سے آزاد ہو کر کام کرنا چاہیے اور نیوز کوریج میں توازن قائم رکھنا چاہئے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے مقالے میں ان دونوں سرکاری اداروں کو مشورہ دیا کہ انہیں حکومت اور اپوزیشن کی کوریج میں بھی توازن قائم رکھنا چاہیے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یہ ناقابل قبول ہے۔
کیا آج کے پاکستان میں پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے لئے سپریم کورٹ کے ان دو فیصلوں پر عملدرآمد کرنا ممکن ہے جن کا حوالہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دیا؟ کیا آج کے پاکستان میں فیض آباد دھرنا کیس کے اس فیصلے پر عملدرآمد ہوگا یا نہیں جو خود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےلکھا؟سب ہی مانتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا حل آئین و قانون کی بالادستی میں ہے لیکن ہر کوئی آئین و قانون کو زیر کرنے کے راستے تلاش کر رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں پارلیمنٹ میں ایسے قوانین منظور کرائے جائیں گے جن کا مقصد اداروں کو مضبوط بنانا نہیںبلکہ چند افراد کے مفادات کا تحفظ ہوگا۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے 2021ء کے مقالے میں کہا تھا کہ ’’آئین پر عملدرآمد نہ ہونے کےباعث پاکستان دولخت ہوگیا تھا۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کریں کہ آئندہ آئین کی خلاف ورزی کریں گے نہ کسی کو کرنے دینگے‘‘۔قاضی صاحب سےگزارش ہے کہ اپنے اس تاریخی مقالے کو خودبھی دوبارہ پڑھیں، تمام ساتھی ججوں کوبھی پڑھنے کیلئے دیں تاکہ عدلیہ بحیثیت ادارہ آئین کی خلاف ورزی کے تمام راستے بند کردے کیونکہ یہی پاکستان کا اصل قومی مفاد ہے۔ (بشکریہ جنگ)۔۔