تحریر: افضال ریحان
جب کبھی یہ شکوہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں آزادی اظہار کا فقدان ہے جس کے کارن یہاں ایک سو ایک مسائل ہیں کیونکہ جب تک درست تشخیص اور نشاندہی نہیں ہوگی درپیش مسائل کا جو بھی حل نکالا جائے گا وہ ادھورا ویکطرفہ ہوگا، ابھی یہ بات مکمل نہیں ہو پاتی کہ جھٹ سے کسی سیانے قدامت پرست یا انتہاپسند کی آواز اٹھتی ہے کہ’’ افضال صاحب آپ کا رونا دھونا فضول ہے یہاں آزادی اظہار پر کوئی بندش یا قدغن نہیں صرف بات کرنے کا طریقہ،سلیقہ اور ڈھنگ آنا چاہیے کڑوی سے کڑوی بات بھی میٹھے اسلوب میں کی جا سکتی ہے ‘‘درویش حیرت میں ڈوب کر عرض کرتا ہے کہ حضور آپ کسی کھرے انسان کو منافقت کا اسلوب کیوں سکھلانا چاہتے ہیں؟
آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ کڑوی سے کڑوی بات کو بھی ایک تہذیبی دائرے کے اندر رہ کر نرم لفظوں میں بیان کرو حالانکہ ضرورت سے زیادہ توڑ مروڑ اصلیت یا ٹھیٹھ پن کا خاتمہ کر دیتی ہے۔ رہ گیا کڑوی بات کو میٹھے اسلوب میں کہنے کا بیانیہ اس کا جتنا چاہے شان نزول بیان کر لیں لیکن یہ سوائے کھراپن ختم کرنے کےاور کچھ نہیں ۔آزمودہ حقیقت ہے کہ ہمارا عام ذہن ایسی تنقید کو توصیف سمجھ بیٹھتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارا کامن سینس کس شعوری سطح یا درجے کا ہے۔ پچھلی پوری صدی سے مقتدر چالاک ذہنیت نے سادہ لوح عوام کو جس قدر بیوقوف بنائے رکھا اور آج بھی انہیں بیوقوف بنا کر تمام وسائل ہڑپ کر رہی ہے ان بچاروںکو پتہ ہی نہیں چل رہا کہ ان کا خیر خواہ کون ہے اورنوسر باز کون؟
سوال اٹھتاہے کہ ایسی حکمتوں یا دانائیوں کا کیافائدہ جنہیں محض حکما ء ہی جان یا سمجھ سکیں، عوام الناس جو اصل مخاطب ہیں ان کے پلے کچھ نہ پڑے؟ ایسے سیانے بھی ہیں جو اس نوع کے مشورے دیتے نہیں تھکتے کہ دیکھو مقامی زبان میں ایسی باتیں لکھنا یا بولنا مناسب نہیں بہتر ہے آپ اپنا میڈیم بدل لیں یہی باتیں اگر انگریزی زبان میں لکھو گے تو کسی کو اعتراض نہ ہوگا ،درویش عرض گزار ہے کہ ایسی کسی بھی کاوش کا فائدہ یا حاصل کیا ہے؟ مقصود تو اپنے لوگوں تک اپنی بات پہنچاناہے نہ کہ انگریزی دانوں سے واہ واہ کروانا، تو پھر یہ حجت بازیاں کیوں؟رہ گیا ادبی اسلوب یا ایسی لفاظی جس سے عام آدمی کےپلے کچھ نہ پڑےاس کا بھی حاصل حصول صفرہے۔آج اگر ہمارے لوگ قدامت پسند ہیں اور اسی شراب کہنہ کو نور بصیرت خیال کرتے ہیں تو اس کی بنیاد کیا یہی رویہ نہیں ہے؟
آج اگر ہمارے لوگ دیگراقوام کے خلاف منافرت سے پھٹ رہے ہیں تو باریک بینی سے اس کا کھرا ڈھونڈو، اس کا سورس بھی یہی ہوگا کہ بات کو گھما پھرا کرکیا جاتا رہا ہے۔ آج ہم سب پریشان ہیں کہ اگر کسی پر توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگ جائے تو ہمارے عامتہ المسلمین فوری جوق در جوق کیوں جمع ہو جاتے ہیں کہ اس گنہگار کو ظالمانہ طور پر مارتے ہوئے جہنم رسید کر دیں ؟اس کی بنیاد بھی کیا یہی زیادہ سیانی قدامت پسندی نہیں ہے؟ ایک نام نہاد پیر صاحب نے اپنے کچھ مریدوں کو جب یہ کہا کہ وہ انہیں قتل کرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کی طاقت رکھتا ہےاور ما بعد ایسا کر ڈالا تو پکے سچے مرید اس پر بھی ایمان لے آئے اور ایسے دعوے کرتے پائے گئے کہ اگر پولیس ہمارے پیر صاحب کو فوری نہ پکڑتی اور انہیں اپنا وظیفہ مکمل کرنے دیتی تو انہوں نے مرے ہوؤں کو زندہ کر دینا تھا کیونکہ ان مومنین کو ہمیشہ سے اسی نوع کے قصے سنائے،پڑھائے اور دماغوں میں بٹھائے گئے ہیں کہ فلاں ہستی نے یہ کرشمہ کر دکھایا تھا، فلاں ہستی مردوں کو زندہ کر دیتی تھی۔آج اگر ہمارے عوام کی یہ ذہنیت ہے کہ ہمارے مخصوص طاقتور ہمارے محافظ ومحسن اور ان داتا ہیں، یہ ہیں تو ہم ہیں وغیرہ وغیرہ ،کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے ان عوام میں اس نوع کی کہانیاں اس شدت سے کیوں پھیلی ہوئی ہیں؟ کن لوگوں نے پھیلا رکھی ہیں اور ان کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟ ہم لوگ اس مائنڈ سیٹ کے ساتھ کیسے ذمہ دار شہری اور باوقار انسان بن سکتے ہیں؟
عزیزانِ من اس کا ایک ہی راستہ ہے، اس درویش اورحریت فکر کی اپروچ رکھنے والے تمام لوگوں کو اسی طرح آزادی اظہار عنایت فرما دیں جیسی قدامت کے علمبرداروں کو یکطرفہ طور پر بالفعل یہاں حاصل ہے۔ درویش کے سینے میں بارہا یہ بھڑاس اٹھتی ہے کہ ہمارا یہ مسلم سماج اور اس کے تاجدار چند برسوں کے لیے ہی آزادی اظہار کا وہ حق ہمیں بھی دے دیں جو خود انہیں پوری آزادی سے حاصل ہے، اگر آپ لوگ جان کی امان بخشتے ہوئے لبرل انسانوں کے ساتھ ہتھ چالاکی یا دست درازی نہ کریں تو محض ایک برس بعد قدامت و انتہاپسند یہ ڈھونڈتے پھریں گے کہ ہمارا وہ مقدس نظریہ جبر کہاں چلا گیا ،جس کی دھاک و دہشت ہم پورے سماج پر بٹھائے ہوئے تھے۔(بشکریہ جنگ)