سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار ایاز امیر کا کہنا ہے کہ۔۔جس حکومت کو نکالنا تھا وہ چلی گئی‘ مرضی کے لوگ اُس حکومت کی جگہ لائے گئے‘ سولہ‘ اٹھارہ ماہ نااہلی کی انتہا کر دی گئی‘ الیکشن اپنی مرضی کے کرائے‘ عوام کی رائے کیا تھی اور نتائج کیا نکلے‘ یہ سب کچھ ہو چکا لیکن حیرانی کی بات ہے کہ اگلوں کو سکون نصیب نہیں ہو رہا۔ دنیانیوز میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ آزادیٔ اظہار کی جو حالت ہو چکی ہے ہمارے سامنے ہے۔ جب ٹیلی ویژن پروگرام کرتے تھے تو کیا کیا احتیاط نہیں برتنی پڑتی تھی۔ فلاں کا نام نہیں لینا‘ فلاں کا ذکر نہیں کرنا‘ حتیٰ کہ موٹر گاڑیوں کے کچھ ماڈل ایسے تھے اُن کا ذکر بھی شجرِ ممنوعہ کردیا گیا کیونکہ فکر لاحق رہتی کہ فلاں برانڈ کی گاڑی کا نام لیا تواُس سے یہ خطرناک مفہوم نکل سکتا ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ کہ اتنا کچھ کرنے کے بعد تو چین آ جانا چاہیے تھا لیکن نہیں‘ سوشل میڈیا کا بخار سروں پر ایسا چڑھا ہوا ہے کہ اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ سمجھا کیوں نہیں جا رہا کہ سوشل میڈیا پر جن روشوں کو قابلِ اعتراض سمجھا جا رہا ہے وہ موجودہ ملکی صورتحال کا قدرتی ردِعمل ہیں۔ عوامی جذبات ایک خاص ڈھانچے میں ڈھل چکے ہیں‘ عوام الناس کے ہاتھ سوشل میڈیا کا ہتھیار آیا ہے تو لوگ اُس کا استعمال کر رہے ہیں۔ اخبارات تو ہمارے ہاں کنٹرول ہوتے رہے ہیں‘ ٹی وی چینلوں کو بھی کنٹرول کرنا مشکل نہیں لیکن سوشل میڈیا تو آسمانوں پہ یا یوں کہیے خلا میں بستا ہے۔ مکمل طور پر چینی کمیونسٹ پارٹی اس کو کنٹرول نہیں کر سکی تو ہمارے ہاں کی صلاحیتوں کے بارے میں کیا کہا جائے۔مکمل علاج تو یہ ہے کہ پورے کا پورا انٹرنیٹ بند کر دیا جائے‘ مملکت خداداد کو پوری دنیا سے الگ تھلگ کر دیا جائے۔ پرانا ٹویٹر‘ جو اَب ایکس کہلاتا ہے‘ پر یہاں پابندی لگ نہیں گئی؟ لیکن کیا ایکس تک رسائی ختم ہو گئی ہے؟ جسے سائبر سپیس کہتے ہیں‘ اُس کا پھیلاؤ تو آسمانوں پر ہے۔ آپ ایک پابندی لگائیں گے اُسے بائی پاس کرنے کیلئے سو طریقے نکل آتے ہیں۔ جنہوں نے ایکس کا استعمال کرنا ہے وہ اب بھی کر رہے ہیں۔ اور وہ دیکھا نہیں جو ایک ٹویٹ اُس مخصوص جیل کی دیواروں کے پیچھے سے سامنے آیا اور جس نے مخصوص ذہنوں میں تھرتھلی مچا دی۔۔ایاز امیر مزیدلکھتے ہیں کہ ۔۔یہ احمد فرہاد والا ڈرامہ بھی دیکھ لیا جائے‘ بات کا ایسا بتنگڑ ہمارے اگلوں نے بنا دیا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ انسان ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو جائے یا رونے بیٹھ جائے۔ یہ جسٹس محسن اختر کیانی کی ہمت تھی کہ احمد فرہاد اتنی جلد منظرِ عام پر آ گئے‘ نہیں تو جیسے کتنے اور جب غائب ہوتے تھے توعرصہ دراز تک غائب ہی رہتے تھے‘ ان کا حال بھی یہی ہوتا۔ لیکن جج صاحب کی ہمت اور اصرار کی وجہ سے احمد فرہاد گمشدگی کے اندھیروں سے نکلے تو ایک نیا ڈرامہ رچایا گیا‘ جس میں کہا گیا کہ یہ تو آزاد کشمیر کے فلاں مقام سے پولیس کے سامنے مزاحمت کرتے ہوئے پکڑے گئے اور ان پر فلاں تھانے میں پرچہ درج ہو گیا ہے۔ ایسے ڈراموں سے اپنا ہی تمسخر اُڑتا ہے۔ مطلب تو یہ نکلا نا کہ سچ کہنے کی ہمت نہ ہوئی۔ جہاں زور زبردستی کی باتیں چلیں وہاں کچھ ہمت بھی ہونی چاہیے۔ کتنا اچھا ہوتا کہ احمد فرہاد کو جسٹس محسن کیانی کی عدالت میں پیش کیا جاتا۔ جسٹس صاحب نے ہتھکڑیاں تو لگوانی نہیں تھیں‘ بس یہ ہوتا کہ ساری قوم کہتی کہ نہیں‘ اب بھی ہماری عدالتوں میں کچھ ہمت باقی ہے ۔