azadi izhar ka ghalat istemal

آزادیٔ اظہار کا غلط استعمال

تحریر: ڈاکٹر صوفیہ یوسف۔۔

28جون کو جب پوری مسلم دنیا عید الاضحی منارہی تھی‘ اس دن سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں واقع مرکزی مسجد کے باہر عراقی نژاد 37سالہ سویڈش شہری سلوان مومیکا نے مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن مجید کی بے حرمتی کی۔ دل آزاری کے اس عمل کے خلاف پوری مسلم دنیا میں غم و غصہ پھیل گیا۔ سویڈن میں ہونے والا یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل جنوری میں راسموس پالوڈن نے بھی قرآن پاک کو نظر آتش کیا تھا۔ ڈنمارک اور نیدرلینڈ میں بھی ایسے واقعات ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی اور مقدس شخصیات کے خاکے شائع کرنے کے مذموم واقعات بڑھ رہے ہیں۔ سلوان مومیکا کا یہ شدت پسندانہ عمل اور اس جیسے دیگر واقعات جن میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تیزی آئی ہے‘ یہ واقعات اپنی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ اسلامو فوبیا درحقیقت یورو سینٹرزم‘ ایتھنو سینٹرزم‘ زینو فوبیا اور نسل پرستی کی ایک طویل روایت کے سلسلے کی آخری کڑی ہے۔ یہ کیسی آزادیٔ اظہار ہے کہ ایک آدمی کو ایسا عمل کرنے سے نہ روکا جائے جس سے دو بلین سے زیادہ انسانوں کی جذبات مجروح ہوں۔ اسلام کا نام نہاد خوف مسلمانوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد اور جبر کی ایک وجہ بن گیا ہے۔ چونکہ اسلامو فوبیا کو مغرب میں نسل پرستی‘ زینو فوبیا کی ایک طویل تاریخ نے پالا ہے‘ اس لیے اس پر قابو پانا مشکل ہے۔ اسلامو فوبیا بین الاقوامی سیاست کے لیے بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اسلام اور مغرب کے درمیان تعلقات کی تاریخ تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتاب ”اورینٹلزم‘‘ میں مشرق و مغرب کے تعلقات کی نوعیت بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ”مشرق نہ صرف یورپ سے ملحق ہے‘ یہ یورپ کی سب سے بڑی‘ امیر ترین اور قدیم ترین نوآبادیات کا مقام بھی ہے۔ اس کی تہذیبوں اور زبانوں کا منبع اور اس کا ثقافتی مقابلہ کرنے والا ہے‘‘۔ یہ ایک سٹریٹجک معاملہ بھی ہے‘ جس کے ذریعے مغرب اپنے عالمی تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے مسلمانوں کے تصورات کو کنٹرول اور تشکیل دینا چاہتا ہے اور اسلامو فوبیا کو سیاسی آلہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

مغربی سیاست دان اسلام کو ایک عالمی انسدادِ ثقافت کے طور پر دیکھتے ہیں‘ وہ اپنے حلقوں کو مشترکہ خطرے کے جذبات کے ساتھ متحد کرکے اپنے ملکوں کی سرحدوں کے اندر اور باہر دونوں سطحوں پر اسلاموفوبیا کو آلے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اسلامو فوبک افکار اور پالیسیاں میڈیا‘ سیاسی بیان بازی اور اسلام فوبیا نیٹ ورکس کے ذریعے پھیلائی جا رہی ہیں۔ آخری صلیبی جنگ میں شکست کے بعد تیرہویں صدی میں آسٹریا کے شہر ویانا میں ایک اجلاس ہوا تھا‘ اس میں مسلمانوں سے یورپ اور مغربیت کو محفوظ بنانے کے لیے کئی اقدامات تجویز کیے گئے تھے۔ اس کونسل نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ مسلمان مغربی ممالک میں اسلام کی تبلیغ نہ کر سکیں۔ ان تجاویز پر مختلف ادوار میں کام ہوتا رہا۔ مغربی ممالک میں داخلے کے لیے مسلمانوں پر خصوصی ویزا پابندیاں عائد کرنا‘ انہیں وہاں کا شہری بنانے میں مشکلات‘ عالمی سطح پر مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینا‘ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانا اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سرخ خطرے کی جگہ سبز خطرے نے لے لی حالا نکہ مسلمان دنیا کے لیے حقیقی سیاسی یا عسکری خطرہ نہیں ہیں۔ اسلام مخالف اور اسلامی دہشت گردی کے الفاظ کا استعمال مسلم دنیا میں حکومتوں پر تسلط قائم کرنے کا ایک آسان ترین طریقہ ہے۔ مغرب مسلم دنیا کو سنبھالنے کے لیے آزاد حکومتوں کو ترجیح نہیں دیتا۔ استعماری طاقتیں ان ممالک پر اپنا بالواسطہ اور بلاواسطہ کنٹرول برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ مسلم دنیا کو کنٹرول کرنا مغرب اور دوسروں (چین‘ روس) کے درمیان عالمی طاقت کا تعین کرے گا۔ مشرقِ وسطیٰ‘ شمالی افریقہ‘ ہارن آف افریقہ‘ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا جیسے مسلم اکثریتی خطوں پر جس کا بھی زیادہ اثر و رسوخ اور کنٹرول ہو گا‘ اس کی ہی عالمی نظام میں معاشی و سیاسی برتری ہو گی۔

اسلام ایسا عالمی مظہر ہے جو پوری دنیا کے بااثر ممالک کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے اور دنیا میں سب سے تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یورپی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کی تعداد 44ملین سے تجاوزکر چکی ہے اور مغرب میں ان کی موجودگی بڑھ رہی ہے۔ مغربی ممالک سرکاری سطح پر سیکولر ازم کا پر چار کرتے ہیں اور مذہب‘ مذہبی مقدسات و شخصیات کی بے حرمتی کو انسانی حقوق اور آزادیٔ اظہار سے منسلک کیا جاتا ہے۔ آزادیٔ اظہار کے حق کی آڑ میں کچھ میڈیا پلیٹ فارمز کے پاس مذاہب اور عقائد کے احترام کے حوالے سے کسی ریڈ لائن کا نہ ہونا انہیں کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کی سند عطا کرتا ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ‘ قرآن مجید اور دیگر مقدس ہستیوں کو نشانہ بنانے کی توہین آمیز حرکتوں سے عالم اسلام کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ جانتے ہوئے ایسے عوامل کو روکنے کے لیے باقاعدہ کوششوں سے اجتناب کیوں؟ جتنی زیادہ حکومتیں اسلام مخالف پالیسیاں اپناتی ہیں‘ اتنا ہی یہ پولرائزیشن میں حصہ ڈالتی ہیں اور جتنی زیادہ پولرائزیشن ہوگی مغربی ممالک میں اتنا ہی سماجی اور سیاسی تناؤ بڑھے گا۔ اسلام اور مسلمان یورپ اور مغرب سے باہر نہیں ہیں‘ وہ اس کا حصہ ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کو دوسروں سے الگ کرنا اور ان سے بیگانگی جلد یا بہ دیر مغربی معاشروں اور ریاستوں کے لیے عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے موجودہ اسلام مخالف پالیسیوں کو ترک کرنا اجتماعی مفاد میں ہے۔ پوری دنیا کے مستقبل کو بچانے کے لیے اسلام مخالف اور نسل پرستانہ پالیسیوں سے اجتناب ضروری ہے۔ مغرب میں اسلامو فوبیا انفرادی رویوں‘ طرزِ عمل‘ تنظیموں اور اداروں کی پالیسیوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ مقدسات‘ عبادت گاہوں اور لوگوں پر جسمانی و زبانی حملے‘ خاص طور پر وہ لوگ جو اپنی مذہبی شناخت کا واضح مظہر ظاہر کرتے ہیں‘ جیسے حجاب یا نقاب پہننے والی خواتین۔ پالیسیاں یا قانون سازی جو بالواسطہ طور پر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہیں اور ان کی مذہبی آزادی کو غیرضروری طور پر محدود کرتی ہیں‘ جیسے حجاب پر پابندی‘ میناروں والی مساجد کی تعمیر پر پابندی وغیرہ۔

2007ء کے معاشی بحران اور قوم پرست سیاستدانوں کے عروج کے بعد اسلامو فوبیا بڑھ گیا ہے۔ مسلم اقلیتوں کو غیرمتعلقہ اور باقی معاشرے سے خود کو الگ کرنے کی خواہش کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ سب امتیازی سلوک کو بڑھا رہے ہیں۔ یورپی یونین میں رہنے والے تقریباً 44ملین سے زیادہ مسلمانوں کو بعض عناصر یورپی طرزِ زندگی کے لیے موروثی خطرات کے طور پر دکھا رہے ہیں۔ اسلامائزیشن یا یلغار کے افسانے کی پرورش زینو فوبیک دائیں بازو کی پارٹیوں نے کی ہے جو اس وقت عروج پر ہیں۔ اسلامو فوبیا انسانی اقدار کے انحطاط کی علامت ہے۔ سویڈن میں ہونے والے حالیہ واقعہ کے بعد پاکستان کی کوششوں سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے مذہبی منافرت اور تعصب کے خلاف ایک قرارداد منظور کی ہے۔ انسانی حقوق کونسل کے 47اراکین میں سے 28نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا‘ 12اراکین نے مخالفت کی اور سات اراکین نے ووٹ کا حق استعمال نہیں کیا۔

بہر حال آزادیٔ اظہار کا غلط استعمال کرتے ہوئے عید الاضحی کے روز سویڈن میں مرکزی مسجد کے باہر قران مجید کی بے حرمتی کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ دنیا بھر میں اور خصوصاً سویڈن میں شدید احتجاج کے بعد اس واقعے اور اس کے ردِ عمل کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے سویڈن کے وزیر انصاف نے یہ عندیہ دیا ہے کہ ان کی حکومت احتجاجی قانون میں ترمیم کے لیے تیار ہو سکتی ہے۔ نہایت خوش آئند بات ہوگی اگر اس عندیہ کو عملی جامہ پہنایا جائے۔(بشکریہ دنیانیوز)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں