pathar se keeray ka rizq

آزادی اظہار اب کیوں یاد آیا؟

تحریر: یاسر پیرزادہ۔۔

ایک سوال بہت زور وشور سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا آپ آزادی اظہار کی حمایت کرتےہیں اور اگر کرتے ہیں تو کیا آپ اُن لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اِس آزادی کا حق استعمال کرنے کی پاداش میں آج کل زیر عتاب ہیں ؟

یادش بخیر ،ایک ایسا ہی سوال جنرل ضیا الحق مرحوم نے بھی پوچھا تھا کہ کیا آپ قرآن و سنت کے مطابق کی گئی اُن قانونی ترامیم کی حمایت کرتے ہیں جو جنرل ضیا الحق نے کیں اور کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ عمل جاری رہے اور کیاآپ پاکستان کے اسلامی نظریےکی حمایت کرتے ہیں؟ بھلا کون کافر اِس کا جواب نفی میں دے سکتا تھا لیکن مصیبت یہ تھی کہ ہاں کہنے کی صورت میں جنرل ضیا پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہوجاتے۔اور وہ ہو گئے ۔آزادی اظہار والا سوال بھی اسی قسم کا ہے۔ کون شخص ہے جوآزادی اظہار کے بنیادی اصول کی نفی کرتا ہو ،آئین اِس آزادی کی ضمانت دیتا ہے ، مہذب معاشروں میں یہ حق بلا روک ٹوک استعمال کیا جاتا ہے، اِس حق کے بغیر سچ جھوٹ کا تعین نہیں کیا جا سکتا مگر کیا یہ اتنی ہی سادہ بات ہے !جی نہیں ،یہ کوئی ریاضی کا سوال نہیں جس کا جواب دو جمع دو چار ہو۔آزادی اظہار کسی ایک شخص ، گروہ یا جماعت کے لیے نہیں ہوتی کہ صرف وہی اِس حق کو استعمال کر یں اور باقی لوگوں کا گلا گھونٹ دیاجائے،آئین نے یہ آزادی بلاتفریق ہر شہری کو دی ہے ،لہٰذا یہ نہیں ہوسکتا کہ کوئی ایک شخص اِس حق کے اظہار کی آڑ میں لوگوں کی پگڑیاں اچھالے، خواتین صحافیوں کے خلاف غلیظ ٹرینڈ چلائے، انہیں بیہودہ القاب سے پکارے ، اُن کی شہرت کو داغ دار کرے ، اپنے مرد مخالفین کی ذات پر کیچڑ اچھالے ،انہیں غدار کہے ، مذہب فروشی کا طعنہ دے جس کی وجہ سے اُن لوگوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو جائیں اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد جب وہ شخص خود کسی دن قانون کی پکڑ میں آ جائے تو اُس دن دہائی دے کہ یہ میرے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے لہٰذا ہر وہ شہری جو آزادی اظہار کا علمبردار ہے،میری غیر مشروط حمایت کرے ورنہ وہ منافق کہلائے گا۔ سبحان اللہ۔کوئی فرشتہ ایسا کرے تو کرے،انسانوں میں ایسا نہیں ہوتا۔

منطق میں ایک مغالطہ ہے جسے The False Dilemma Fallacy کہتے ہیں، اِس مغالطے کے زیر اثر دلیل دینے والا دو انتہائی موقف آپ کے سامنے رکھتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ اگر آپ اِس میں سے کسی ایک موقف کی حمایت کریں گے تو اِس کا مطلب ہوگا کہ آپ سرے سے دوسرے موقف کو رد کر رہے ہیں ۔مثلاً ، اگر آپ مجھے ووٹ نہیں دیتے تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ محب وطن نہیں ، اگر آپ نے اپنے مستقبل کو سنوارنا ہے تو مجھے چندہ دیں۔یہ نہیں ہوسکتا کہ جب آپ پر قانون کا شکنجہ کسا جائے تو آئین میں دی گئی آزادیوں کے حوالے دینے لگیں ۔ آئین میں یہ آزادیاں کسی فرد واحد کے لیے نہیں لکھی گئیں بلکہ یہ میر شکیل الرحمن ،مطیع اللہ جان، ابصار عالم، حامد میر، غریدہ فاروقی، عاصمہ شیرازی اور ان جیسے درجنوں صحافیوں اور شہری آزادیوں کے علمبرداروں اورپاکستان کے بائیس کروڑ شہریوں کیلئے بھی لکھی گئی تھیں مگر اِن آزادیوں کو جب بیڑیاں پہنائی گئی تھیں تو اُس وقت کسی کو توفیق نہیں ہوئی تھی کہ آئین اور قانون کا حوالہ دیتا۔لہٰذا اب یہ کہنا کہ اگر آپ فلاں شخص کے حق میں نہیں کھڑے تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ آزادی اظہار کے مخالف ہیں دراصل یہ false dilemma fallacy کی مثال ہے۔

اب کچھ بات اصول کی بھی ہوجائے ۔ کہا جاتا ہے کہ عدالت میں دفاع کا حق تو سفاک ترین ملزم کو بھی دیا جاتا ہے ، یہ حق خود کُش بمباروں سے بھی نہیں چھینا جاسکتا لہٰذا کسی نے کوئی بھی بات کی ہو، بہرحال وہ آزادی اظہار کے زُمرے میں آتی ہے لہٰذا اُس پر بغاوت یا غداری کا مقدمہ بنانا سراسر زیادتی ہے۔یہ بالکل درست بات ہے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال پوچھنا بھی اتنا ہی درست ہے کہ یہ سارے اصول، قانون ، ضابطے اور آئین کی شقیں اب یاد کیوں آ رہی ہیں! ماضی قریب میں درجنوں لوگوں پر بغاوت اور غداری کے جھوٹے مقدمے بنائے گئے، اُن کے خاندان کے افراد کو گھروں سے اٹھایا گیا ،انہیں تھانوں میں ذلیل کیا گیا،ہتھکڑیاں لگا کر تصاویر بنائی گئیں ، عادی مجرموں کے ساتھ جیلوں میں بند کیا گیا، انہیں مجبوراً ملک چھوڑ کرجانا پڑا ، اُن کی زندگی اور کیرئیر تباہ ہو گئے ، لیکن اُس وقت اِن تمام لوگوں کے منہ سے حق کا کلمہ بلند نہیں ہوا جو آج کلمہ حق کی دہائی دے رہے ہیں، کسی نے اصول اور قانون کی بات نہیں کی، بلکہ الٹا اِس سارے کام میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا اور کہا کہ عدالتیں کھلی ہیں ، ملک میں قانون موجود ہے ، جاؤ جا کر قانون کا سامنا کرو، اگر آپ کا دامن صاف ہواتو آپ با عزت بری ہوجائیں گے۔ کیسی عمدہ بات تھی تو کیوں نہ یہ بات آج بھی کر دی جائے کہ بیشک غداری اور بغاوت کے مقدمے بنانا درست نہیں مگر عدالتیں کھلی ہیں، ملک میں آئین موجود ہے، انصاف مل جائے گا۔ اگر بات اصول کی کرنی ہے تو پھر کیوں نہ پہلے اُن تمام اقدامات اور بیانات سے اعلانِ برات کیا جائے جو ماضی میں لوگوں کی کردار کشی کے وقت دیے گئےاوراُن لوگوں کے خاندان والوں سے معافی مانگی جائے جن کی زندگیاں آپ نے غدار اور ملک دشمن کہہ کر تباہ کیں۔ پہلے آپ یہ تمام اصولی باتیں کیجیےاُس کے بعد کسی دوسرے سے اصولی بات کی توقع کریں۔ یہ ممکن نہیں کہ لوگوں کی ذات پر تبرّا کرنے کا خصوصی (exclusive) اجازت نامہ بھی آپ کے پاس رہے اور آپ کے اِس حق کے لیے سول سوسائٹی اور آزادی اظہار کے علمبردار کھڑے بھی ہوں، یہ پیغمبرانہ وصف ہے ،انسانوں سے اِس کی امید نہ رکھی جائے۔(بشکریہ جنگ)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں