تحریر: ڈاکٹر توصیف احمد خان
کراچی پریس کلب محض صحافیوں کا تفریحی مقام نہیں بلکہ آزادی صحافت کا اس ملک میں سب سے قدیم اور موثر ادارہ ہے، ریاستی اداروں اور سماج کے ستائے ہوئے لوگوں کی آواز ہے۔کراچی پریس کلب منحرفین کے لیے وہ جگہ ہے جہاں وہ اپنا مؤقف بیان کرسکتے ہیں مگرکراچی پریس کلب ریاستی اداروں کی چیرہ دستی کا شکار ہے۔ گزشتہ ہفتے پولیس اور نا معلوم خفیہ اہلکار رات گئے پریس کلب میں داخل ہوئے، صحافیوں کو ہراساں کیا، عکس بندی بھی کی ۔ نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو نے ایوان بالا سینیٹ میں آزادی صحافت کے ادارے کے تقدس کی پامالی کا مسئلہ اٹھایا تو حکومت سندھ کے مشیر اطلاعات مرتضیٰ وہاب نے وضاحت کی کہ ’’ اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے دھماکا خیز مواد کی نشاندہی کرنے والے آلے کی خرابی کی بناء پر یہ سب کچھ ہوا ۔‘‘ یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔گزشتہ کئی برسوں سے کراچی پریس کلب ریاستی اداروں کے دباؤکا شکار ہے۔ کچھ ادارے کراچی پریس کلب کے جمہوری کردار سے خوش نہیں ، یہی وجہ ہے کہ کبھی پریس کلب کی زمین کی لیز اورکبھی احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کے تناظر میں کلب کے عہدیداروں کو مختلف نوعیت کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب ایک صحافی نصر اللہ چوہدری کے خلاف مقدمہ قائم کرنے سے بھی کچھ معاملات واضح ہوگئے۔
کراچی پریس کلب 1959ء میں قائم ہوا ۔ پریس کلب قائم کرنے والے صحافیوں نے اس کا ایک جمہوری آئین تیارکیا۔ صحافیوں نے جمہوری روایات کو اپنایا اور ہر سال آئین کے تحت وقت پر انتخابات کے انعقاد کی روایت قائم کی۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل غیر جانبدار انتخابی کمیٹی کے ذریعے شفاف انتخابات کا ایک ایسا ماڈل ظہور پذیر ہوا جو پورے ملک کے لیے مثال بن گیا۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے صحافیوں کے حالات کارکو بہتر بنانے اور آزادئ صحافت کے حق کو منوانے کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ یہ جدوجہد 50ء کی دہائی سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔پی ایف یو جے اور اس کی ذیلی تنظیموں کی سرگرمیوں کا محور ہمیشہ کراچی پریس کلب ہی رہا۔ جب فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں مارشل لاء نافذکیا اور ملک کے صدر بن گئے تو جنرل ایوب خان نے سیاستدانوں پر پابندیاں عائد کیں۔ آزاد اخبارات پاکستان ٹائمز، امروز اور لیل و نہار پرقبضہ کیا اور پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کے ذریعے اخبارات پرنئی پابندیاں عائد کر دیں تو پی ایف یو جے نے 1963ء میں کراچی پریس کلب سے احتجاجی تحریک شروع کی ۔ مختلف رہنماؤں نے پی ایف یو جے کے رہنماؤں صفدر قریشی اور اسرار احمد کے ساتھ کراچی پریس کلب کے ٹیرس پر احتجاجی جلسے سے خطاب کیا ۔
اخباری مالکان کی تنظیم آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (APNS) ، اخباری ایڈیٹروں کی تنظیم کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز (CPNE) اس تحریک میں شامل ہوئے اور تمام اخبارات نے ایک دن کی ہڑتال کی ۔ یہ تحریک کامیاب رہی،اخباری تنظیموں کے مطالبات ماننے پڑے اور پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس1963ء میں ترامیم ہوئیں۔ اگرچہ جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف یہ پہلی تحریک تھی مگرکبھی پولیس یا خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں نے کلب کی حدود میں داخل ہونے کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں صدر ذوالفقار علی بھٹو نے حزب اختلاف کی ترجمانی کرنے والے اخبارات پر پابندی لگا دی ۔ اخباری صنعت کی تنظیموں نے احتجاج کیا ۔ایک دن کی ہڑتال ہوئی اور ان تمام سرگرمیوں کا مرکزکراچی پریس کلب رہا مگر حکومت کی انتظامیہ نے کراچی پریس کلب کے تقدس کا احترام کیا۔ جنرل یحییٰ خان کے دور میں پی ایف یو جے نے غیر صحافی عملے کو عبوری امداد دینے کے مطالبے کے لیے 10 دن تک ہڑتال کی۔ جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات جنرل شبیر علی خان کی ایماء پر اخباری اداروں نے 100سے زائد صحافی اور غیر صحافی برطرف کیے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ جب وہ برسر اقتدار آئیں گے تو ان صحافیوں کو ملازمتوں پر بحال کیا جائے گا ، بھٹو حکومت نے یہ وعدہ پورا کیا، تمام صحافی بحال ہوئے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے صحافیوں کا ایک اور مطالبہ منظور کرتے ہوئے نیوز پیپرز ایمپلائز ایکٹ 1973ء نافذ کیا۔اس قانون کے تحت ویج بورڈ ایوارڈ کو قانونی تحفظ ملا ۔ کہا جاتا ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹوکی خواہش تھی کہ وہ کراچی پریس کلب میں صحافیوں سے خطاب کریں مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کی آزادئ صحافت کے خلاف کارروائیوں کی بناء پر کراچی پریس کلب کے عہدیداروں نے بھٹو صاحب سمیت حکومت کے کسی عہدیدار کو کلب آنے کی اجازت نہیں دی مگر بھٹو حکومت نے کسی قسم کا دباؤ استعمال نہیں کیا۔ جب تیسرے آمر جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مخالف اخبارات پر پابندیاں عائد کیں تو پی ایف یو جے نے اخبارات کی بحالی کے لیے کراچی پریس کلب سے تحریک شروع کی۔ صحافی کلب کے ٹیرس میں بھوک ہڑتال کرتے تھے۔ پولیس کے دستے نے منہاج برنا اور احفاظ الرحمن کو رات گئے کراچی پریس میں داخل ہوکرگرفتار کیا۔اس وقت پولیس کی مداخلت پر پورے ملک میں احتجاج ہوا اور تحریک لاہور منتقل ہوئی اور پھر کراچی پریس کلب اس تحریک کا مرکز بن گیا مگر پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار اس عمارت سے دور رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں جب مخالف سیاسی جماعتوں نے تحریک بحالی جمہوریت شروع کی تو اخبارات پر سنسر لگا دیا گیا۔ مگر ایم آر ڈی کے رہنما کراچی پریس کلب میں آکر پریس کانفرنس کرتے۔ بعض اوقات ان رہنماؤں کو کلب میں اجلاس کرنے کی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں ۔
شاعر عوام حبیب جالب جب بھی آمریت کے خلاف کوئی نئی نظم تخلیق کرتے تو کراچی پریس کلب میں ان کے اعزاز میں جلسہ ہوتا اور وہ اپنی انقلابی شاعری سناتے۔ اس زمانے میں پریس کلب نے ڈاکٹر عبدالسلام، فیض احمد فیض، حبیب جالب اور احمد فراز وغیرہ کو اعزازی رکنیت دی۔ جب شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی معتوب قرار پائے تو پورے ملک میں صرف کراچی پریس کلب میں زوردار احتجاجی جلسہ ہوا۔معروف ماہر تعلیم پروفیسر کرار حسین نے اس جلسے میں دلائل سے بھرپور عالمانہ تقریر کی۔ کراچی پریس کلب میں صحافیوں کی احتجاجی تحریک جاری تھی تو اس وقت سینئر صحافی اشفاق بخاری کلب کے صدر تھے۔ وہ کبھی ذکر کرتے تھے کہ مارشل لاء انتظامیہ پریس کلب میں ہونے والی سرگرمیوں کو روکنا چاہتی تھی، انھیں کبھی کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر بلایا جاتا تھا۔ افسران زور دیتے تھے کہ کراچی پریس کلب میں مارشل لاء مخالف سرگرمیاں ہورہی ہیں انھیں روکیں۔اسی زمانے میں جنرل ضیاء الحق نے کے پی سی کو Enemy Territory قرار دیا مگر حکومت کو کے پی سی پر حملے کی جرات نہیں ہوئی۔ اس طرح جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں عدلیہ بحالی تحریک شروع ہوئی تو کے پی سی اس تحریک کا ایک مرکز بنا۔ پرویز مشرف حکومت نے ٹی وی چینلز پر پابندیاں لگائیں۔کراچی پریس کلب کے صحافیوں نے جلوس نکالا اور کلب کی سڑک سے صحافی گرفتار ہوئے۔ پولیس نے ایک احتجاجی جلسے کے وقت کلب کا گھیراؤ کیا ۔پولیس حکام نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو ، عوامی ورکرز پارٹی کے یوسف مستی خان، اسٹیٹ بینک یونین کے رہنما لیاقت ساہی وغیرہ کو گرفتار کرنا چاہتی تھی مگر پولیس فورس نے کئی گھنٹے تک عمارت کو گھیرے رکھا مگر کلب کا تقدس پامال نہ کیا۔ دو سال قبل ایم کیو ایم لندن کے رہنما ڈاکٹرظفر عارف ، مومن خان اور حمید اللہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرنے آئے تو پولیس اور رینجرز کے دستے پورے علاقے کو گھیرے ہوئے تھے۔ جب یہ لوگ کلب سے نکل کر اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہوئے توگرفتار کرلیے گئے۔کراچی پریس کلب میں آج بھی دائیں اور بائیں بازوکے نظریاتی صحافی زوروشور سے بحث ومباحثہ کرتے ہیں۔ خوب اختلاف ہوتا ہے مگر آزادئ صحافت کے لیے سب متحد ہوجاتے ہیں۔
اس وقت میڈیا اپنی تاریخ کے شدید ترین مالیاتی بحران سے گزر رہا ہے۔ حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی دورکے قوانین کو دوبارہ نافذ کرنے اور میڈیا کی آزادی کو مفلوج کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ پاکستان صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے دنیا کے تین خطرناک ترین ممالک میں شامل ہے۔ اس تناظر میں کے پی سی پر حملہ کچھ اور داستان سنا رہا ہے۔ گزشتہ دو برسوں نے سویلین اداروں کے لیے راستہ محدود کردیے۔ آمرانہ سوچ کی حامل ملکی قیادت آزادئ صحافت کے سب سے بڑے ادارے کی شمع کوگل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔(بشکریہ ایکسپریس)