alu timatar lelo sahafi lelo

آزاد صحافت پر طمانچہ

تحریر: محمد نواز طاہر

پاک سر زمین کس قدر انحطاط یا زوال کا شکار ہوچکی ہے کہ یہاں صحافتی تنظیمیں اب اپنے کارکنوں کو پیشہ وارانہ فرائض کی بجا آوری میں جان کی بازی لگانے کا درس دینے کے بجائے ، جان بچانے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا صرف مشورہ نہیں دے رہیں بلکہ اس پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے باقاعدہ کمیٹیاں بھی بناتی ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ اظہارِ رائے اور صحافت کی آزادی کا علم بھی اٹھا رکھا ہے ، جب صحافت کی آزادی کا علم اٹھا رکھا ہے اور پیشہ ورانہ فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی بھی( پی ایف یو جے کے اکابرین کی تقلید میں ) نہیں برتنی تو جان بچانے کی تدابیر اور خصوصی کمیٹی کے قیام کا مطلب کیا ہوا۔؟ بظاہر اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی صحافی یا میڈیا کارکن کوریج کے لئے نہ جائے کہ ان کی زندگی خطرے میں ہے اور صحافی خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ، اگر صحافی خطرے سے ڈرتا ہے تو اسے صحافی کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ ایسی صورت میں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا مشورہ دینے والی تنظیم کی دل کھول کر مذمت کرنا چاہئے کہ یہ اپنے کارکنوں کی حوصلہ شکنی کررہی ہے اور پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی سے روکنے کی ترغیب بھی دے رہی ہے لیکن میں اس تنظیم کے فیصلے کی تائید اور قائدین کی بصیرت کی تحسین کرتا ہوں ۔میرے اس فیصلے اور سوچ پر آپ چاہیں جیسے مرضی سوچیں ، مذمت کریں اور غیر پیشہ ورانہ سوچ قراردیں ، کجھے اس سے فرق اس لئے نہیں پڑتا کہ یہاں سوال صحافی اور صحافت کا ہے ہی نہیں ، اگر صحافی اور صحافت کا سوال ہوتا تو صحافتی تنظیم اپنے کارکنوں کو ایسا مشورہ ہرگز نہ دیتی ، یہاں تو کاروباری اور سیاسی مسائل ہیں ۔ اشاعتی اور نشریاتی ادارے صحافتی ادارے نہیں رہے ، بلکہ طوائف کے کوٹھے بنادیئے گئے ہیں اور صحافتی فرائض انجام دینے والوں کو تابعدار کلرک بنادیا گیا ہے ۔۔۔

 جہاں تک جان بچانے کا الرٹ جاری کرنے کا اور اس کی تحسین کا تعلق ہے تو یہ جاننا اور سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ایک تنظیم اس نوبت تک کیوں پہنچی۔ ۔ ۔ کسی کو یاد ہو  نہ ہو۔۔ کارکنوں کے حقوق کی بات کرنے والے اپنے ساتھیوں کی لاشوں اور ان کے پسماندگان کی زندہ لاشوں کو ہرگز نہیں بھلا سکتے ۔۔ جنہیں ایک طرف ریاست اور ریاستی عناصر ، گروہ اور میڈیا مالکان کی پھیلائی ہوئی بھوک مار رہی ہے تو دوسری جانب انہیں کارکنوں کو موت کے عفریت کا نوالا بننے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے ۔۔ میڈیا مالکان کی تمام تنظیمیں کلارکنوں کے معاملے میں کس قدر بے حس ہیں اس کا اندازہ اگر کسی کو نہیں ہے تو اسے ذی شعور کہلانے کا حق بھی نہیں ہے ۔۔۔۔

 آر آئی یو جے نے اپنے کارکنوں کے لئے جو احتیاطی الرٹ جاری کیا ہے وہ پاکستان کی صحافت اور آزاد صحافت کا دعویٰ کرنے والوں کے منہ پر طمانچہ ہے ۔۔۔اس طمانچے کو کون محسوس کرے گا ۔۔ ؟ کوئی نہیں سیٹھ مافیا اور ریاستی مفاد پرست عناصر ہرگز نہیں ، بس روح تڑپی ہوگی تو ان کی جنہوں نے پاک سر زمیں پر آزاد صحافت کے لئے قربانیاں دیں اور اسی تحریک میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔۔۔ جی چاہتا ہے کہ ہر سرکاری اور غیر سرکار ی بااختیار پر جی بھر کر لعنت بھیجوں جو پاکستان میں صحافت آزاد قراردیتا ہے ۔۔(محمد نوازطاہر)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں