تحریر: ڈاکٹر توصیف احمد خان۔۔
پیمرا اور پریس کونسل کو ختم کرکے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا نیا ادارہ بنایا جائے گا ، نئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے اس اعلان کے ساتھ انسانی حقوق کمیشن کی جامع رپورٹ شایع ہوگئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آزادئ صحافت پر لگائی جانے والی پابندیوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیوں کے ذمے دار ریاستی ادارے ہیں ۔ایچ آر سی پی نے آزادئ صحافت پر پابندیوں کے واقعات کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ملک بھرکے میڈیا ہاؤس کا سروے کرایا اور تحقیق کاروں نے ایڈیٹروں اور صحافیوں سے معلومات حاصل کیں۔ اس معلومات کی بنیاد پر شایع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض اخبارات کی اشاعت میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں اخبارات کی تقسیم میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں مگرکسی تنظیم یا ادارے نے ان کارروائیوں کی ذمے داری قبول نہیں کی۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پریس ایڈوائس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ۔ ٹی وی چینلزکے ٹاک شوز کے دوران ٹیلی فون پر ہدایات جاری کی گئیں ۔اسی طرح مبینہ تشدد کے واقعات اور ان پر احتجاج کی خبروں کا بلیک آؤٹ ہوا ۔ یہ بھی کہا گیا کہ بعض صحافیوں کو مذہبی انتہا پسندوں نے دھمکیاں دیں۔اسی طرح ناقدانہ رائے رکھنے والے بعض اینکرپرسن حضرات کی کردارکشی کی مہم میں شدت آئی ۔ سوشل میڈیا پر ان اینکر پرسن کو توہین آمیز انداز میں تذلیل کا نشانہ بنایا گیا۔ ان اینکر پرسن کے اہل خانہ بھی اس مہم کا شکار ہوئے۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے ساتھ ہی نئے وزیر وفاقی اطلاعات فواد چوہدری کے بیان نے آزادئ صحافت کے طالب علموں کو چوکنا کردیا کہ پریس کونسل پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) کو ختم کرکے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے نیا ادارہ قائم کیا جائے گا ۔
اخباری تنظیموں نے نئے وزیر اطلاعات کی اس تجویز پر سخت ردعمل کا اظہارکیا۔ پاکستان میں آزادئ صحافت پر قدغن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ آزادی کے بعد نئی ریاست وجود میں آئی مگر برطانوی ہند دورکے قوانین اس ملک میں نافذ رہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں صحافیو ں کوکوڑے مارے گئے اور قیدوبند کی سزائیں اور ملازمتوں کی برطرفی کے ساتھ اخبارات پرکئی سال تک سنسرشپ عائد رہی مگر صحافیوں نے سیاہ قوانین کی منسوخی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔ 1963ء میں جنرل ایوب خان نے پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس نافذ کیا۔ صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اس آرڈیننس کے خلاف طویل جدوجہد کی۔ صحافیوں، ایڈیٹروں اور اخباری مالکان کی تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں جنرل ایوب خان نے اس قانون میں جزوی ترامیم کیں مگر آرڈیننس اپنی بعض سیاہ شقوں کے ساتھ لاگو رہا۔آخرکار صحافیوں کی جدوجہد رنگ لائی، 80ء کی دہائی میں فیڈرل شریعت کورٹ کے پی پی اوکی بعض شقوں کو غیر اسلامی قرار دیا گیا۔ وزیر اعظم محمد خان جونیجوکی حکومت نے اس قانون کے متبادل قانون کی تیاری کا کام شروع کیا مگر جنرل ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کردیا ، بعد میں غلام اسحاق خان کی عبوری حکومت نے پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس کو منسوخ کیا اور رجسٹریشن آف پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس (R.P.P.O) نافذ کیا، یوں نئے اخبارات کے لیے ڈیکلریشن کا حصول آسان ہوا اور پریس ایڈوائز کا سلسلہ ختم ہوا ۔
پیپلزپارٹی کی دوسری حکومت میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے نیوز پرنٹ کا کوٹہ سسٹم کا نظام ختم کیا اور نیوز پرنٹ کوکسی اجازت کے بغیر درآمد کرنے کی اجازت دیدی۔ اس سے اخبارات کو حقیقی آزادی حاصل ہوئی۔ اسی زمانے میں یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ اخبارات کے احتساب کے لیے ایک خودمختار ادارہ قائم ہونا چاہیے۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں نجی شعبے میں ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز قائم ہوئے۔ جب شیخ رشید وزیر اطلاعات تھے تو پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹنگ اتھارٹی (P.E.M.R.A) قائم ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی پریس کونسل بھی ایک قانون کے تحت قائم کی گئی ۔پیمرا کا کام لائسنس دینا، الیکٹرونک میڈیا سے نشر ہونے والے مواد کا تجزیہ کرنا اور ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر الیکٹرونک چینلزکے خلاف کارروائی کرنا ہے، اگرچہ ہائی کورٹ کے سابق جج کی قیادت میں پریس کونسل قائم ہوئی مگر پریس کونسل نے حقیقی طور پر اخبارات کے احتساب کا فریضہ انجام نہیں دیا۔ پریس کونسل پر تحقیق کرنے والے محقق ڈاکٹر عرفان عزیزکا کہنا ہے کہ حکومت کے قانون میں خامیوں کی بناء پر پریس کونسل حکومت اور اخباری صنعت کے دباؤکا شکار رہی۔ اسی طرح پیمرا کے ادارے میں لائسنس جاری کرنے، الیکٹرونک میڈیا کے خلاف استغاثہ کا کردار ادا کرنے اور پھر سزا دینے کے اختیارات یکجا ہوگئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے نیوز ون کے اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود کو حقائق کے برخلاف پروگرام نشرکرنے پر تین ماہ کے لیے پروگرام کرنے پر پابندی لگادی ورنہ اس طرح کے سیکڑوں مقدمات اب بھی زیرِ سماعت ہیں، پھرگزشتہ دو برسوں کے دوران اخبارات اور ٹی وی چینلزکو نامعلوم قوتوں نے نشانہ بنانا شروع کیا ۔ سابق حکومت میں 1963ء کے پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس کا ایک چربہ پریس کونسل کو بھیجا گیا اورکونسل کے چیئرمین کو ہدایت کی گئی کہ اس مسودہ قانون کو اپنی کونسل کے اجلاس میں اراکین سے منظور کراکر وزارت اطلاعات کو بھیجا جائے تاکہ یہ مسودہ قانون کے طور پر نافذ کیا جاسکے۔ اس مسودے میں پریس اینڈ پبلکیشنز آرڈیننس میں شامل تمام سیاہ شقوں کو شامل کیا گیا تھا۔
پریس کونسل کے اراکین کے احتجاج پر اخباری صنعت کی تمام تنظیموں نے اس مسودے کو قانون بننے سے روکنے کے لیے لائحہ عمل طے کیا تو اس وقت کی وزیر اطلاعات نے وضاحت کی کہ اس مسودے کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک افسر کی اپنی تخلیق ہے جس کو معطل کر کے تحقیقات کا حکم دیا گیا۔ پھرکچھ ہی عرصے بعد اسی طرح کا مسودہ سندھ کی وزارت اطلاعات کے افسروں کو ملا، جس کی نقل صحافیوں کے ہاتھ لگ گئی، یوں پورے ملک میں جب بھرپور احتجاج ہوا تو اس وقت کے سندھ کے وزیر اطلاعات ناصر شاہ نے وضاحت کی کہ اس مسودے کا حکومت سندھ سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس کے بعد میڈیا پر دباؤ کی شکایتوں میں مزید اضافہ ہوا۔اخبارات اور ٹی وی چینلز کے پروگراموں کو ’’محکمہ زراعت‘‘ والوں نے کنٹرول کرنا شروع کیا۔ اس دوران انتخابات منعقد ہوئے۔ اگرچہ نئے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سرکاری ریڈیو اور ٹی وی چینلز پر سنسر کی پابندی کو ختم کیا ، یوں نئے پاکستان میں اچھا آغاز ہوا ، مگر ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اور میڈیا کی آزادی سے متعلق نئے قوانین کے ذکر سے ہر باشعور فرد کو تشویش پیدا ہوئی ۔ بعض صحافیوں نے وزیر اطلاعات کے ان اعلانات کوکسی نئی چال سے منسوب کیا مگر آزادئ صحافت سے دلچسپی رکھنے والے دانشوروں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اطلاعات پہلے اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیں ۔ ایچ آر سی پی کی رپورٹ پر پارلیمنٹ بحث کرے اور آئین کی شق 19 اور 19-A کے تحت قانون سازی کی جائے۔(بشکریہ ایکسپریس)