تحریر: عبدالقادر حسن
جب بھی کوئی نیا حکمران برسراقتدار آتا ہے تو اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے ملک کا میڈیا اس کی مدح سرائی میں دن رات ایک کر دے ۔ حکمران کو پسند کرنے والے صحافی بھی اپنے پسندیدہ لیڈر کی جانب سے حکومت سنبھالنے پر بغلیں بجاتے نظر آتے ہیں لیکن ہوتا یوں ہے کہ حکومت سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد جب حکمران پر میڈیا میں تنقید شروع ہوتی ہے تو وہی میڈیا جو دن رات تعریفوں کے ڈونگرے برساتا تھا اس کی تنقید طبیعت کو ناگوار گزرنے لگ جاتی ہے اور ایک وقت یہ آجاتا ہے جب حکمران یہ سوچنے لگتا ہے کہ کسی طرح میڈیا کی آزادی کو لگام دے دی جائے اور کوئی ایسا قانون نافذ کر دیا جائے جس سے میڈیا اگر گستاخی کرے تو اس کا گلہ گھونٹ دیا جائے۔
کچھ عرصہ پہلے تک کے حکمران مزے میں تھے کہ ان کا واسطہ صرف چند اخبارات اور ان کے مالکان سے تھا لیکن وقت اور زمانے کی تبدیلی کے ساتھ الیکڑانک میڈیا نے عوام میں مقبولیت حاصل کر لی اور حکمرانوں کی کارستانیوں کو عوام تک پہنچانے کے باعث یہ مقبولیت الیکڑانک میڈیا کے حصے میں آئی۔صحافیوں اور صحافتی اداروں پر پابندی کا پہلا قانون صدر ایوب خان کے دور حکومت میں بنایا گیا جو پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈیننس کے نام سے مشہور ہوا۔ ایوب خان کے بعد بھٹو صاحب اقتدار میں آئے تو اخبارات ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے اس لیے اخبارات پر پابندیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر ضیاء الحق کا مارشل لاء آگیا اور مارشل لاء تو سرتاپا پریس آرڈیننس ہوتاہے۔ جونیجو صاحب کے زمانے میں ان سخت قوانین سے جان چھوٹی ۔
اخبارات اور نیوز چینلز کی آزادی اگرچہ مالکان کی آزادی ہوا کرتی ہے اور کارکن صحافی کبھی آزاد نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اگر میڈیا کو آزادی حاصل ہو تو آزادی کی یہ روشنی کچھ نہ کچھ چھن چھنا کر کارکن صحافیوں تک پہنچ ہی جاتی ہے لیکن جب پابندیاں ہوتی ہیں تو پھر کارکن صحافی دہری پابندیوں میں پھنسے رہتے ہیں۔ ان دنوں ہمارا میڈیا بڑی حد تک آزاد ہے اور خبروں، کالموں اور پروگراموں میں بعض اوقات ایسی باتیں بھی چھپ اور نشر ہو جاتی ہیں جو حکمرانوں کی کتاب میں گستاخی کے باب میں درج کی جاتی ہیں۔
ہماری موجودہ حکومت جو عوام کے بھر پور جمہوری مینڈیٹ سے نہال ہے اب اپنی پالیسیوں کی وجہ سے تھوڑی تھوڑی نڈھال ہوتی جارہی ہے اور میڈیا کی بعض خبریں اسے ناگوار گزر رہی ہیں۔ حکومتی حلقوں میں یہ خیال پیدا کیاجا رہا کہ میڈیا حکومت کے خلاف جارہا ہے حالانکہ حقیقت ایسی نہیں ہے بلکہ اس میں خود حکومتی پالیسیوں کا اپنا حصہ زیادہ ہے۔ میڈیا کے مختلف اداروںمیں جو صحافی موجودہ حکومت کے غیر مشروط حامی تھے انھوں نے بھی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید شروع کر رکھی ہے جس سے یہ تاثر بن رہا ہے کہ میڈیا حکومت کے خلاف جارہا ہے۔
حکومت کے یہ غیر مشروط حامی زور شور سے حکومت کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے رہے لیکن جب عملاً حکومت کا کام شروع ہوا تو ان کو بھی یہ سمجھ آگئی کہ وہ جن کے عاشق تھے ان کے معشوق ان کی امیدوں پر پورا نہیں اتر رہے تو انھوں نے حقیقت حال کا اظہار کرنا شروع کر دیا کیونکہ جو صحافی اپنا اعتبار کھو دے اس کے پاس سوائے کاغذ اور قلم کے اور رہ کیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت کی صفوں میں حامی صحافیوں کی تعداد مزید کم ہو گئی۔ رہے دوسرے اخبار نویس تو ان میں سے شاید ہی کوئی جناب عمران خان کا ذاتی مخالف یا ذاتی دوست ہو بلکہ وہ اخبار نویس ہیں جو خبر کے متلاشی اور پجاری ہیں جیسی خبر ہوگی اس میں وہ کیا تبدیلی کر سکتے ہیں ۔
حکمران تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے چاہے وہ مثبت تنقید ہی کیوں نہ ہو ۔ جہاں تک میرا خیال ہے اس وقت میڈیا کا ایک بڑا حصہ عمران خان کی حکومت کے حق میں ہے اور ان کی حکومت کی کامیابی کا خواہشمند ہے کیونکہ اسے دوسری طرف فی الوقت کچھ نظر نہیں آرہا اور جو نظر آرہا ہے اس کو عوام اور مقتدر حلقے قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس لیے ہر ایک کی یہ خواہش ہے کہ عمران خان کامیاب ہوں اور ملک کو سنوارنے کی کوشش کرتے رہیں۔ ویسے اس وقت لگتا یوں ہے کہ ملک کو سنوارنے کی نہیں بچانے کی ضرورت ہے جب بچ جائے گا تو خود بخود سنور بھی جائے گا۔
حکومت کو اپنا ایجنڈا اور اپنی بات عوام تک پہنچانے کے لیے میڈیا کا سہارا ہی درکار ہے اور یہ سہارا حکومت کے ہاتھ میں ہے حکومت کو اپنے اس سہارے کو مضبوط کرنا چاہیے تا کہ وہ موثر طور پر اپنا پیغام عوام تک پہنچا سکے ۔ صحافیوں سے گلے شکوے ہر حکومت کو رہتے ہیں یہ چولی دامن کا کھیل ہے جو جاری رہتا ہے اور رہے گا ۔ بصیرت اس میں ہے کہ اس چولی دامن کے کھیل کو خوبصورتی سے کھیلا جائے اور دونوں فریق اپنے اپنے دامن کو بچا کر رکھیں اور اپنی اپنی آزادی کا لطف اٹھائیں۔میڈیا کو کسی معقول اور جمہوری ڈسپلن میں ضرور لائیں لیکن انھیں قابو کرنے کا شوق چھوڑ دیں۔ یہ شوق بہت زیادہ مہنگا ہے۔ ان کی استطاعت سے بھی زیادہ۔ (بشکریہ ایکسپریس)