تحریر: خضرحیات کورائی۔۔
19 نومبر کی رات دو بجکر گیارہ منٹ پر واٹس ایپ پیغام موصول ہوا “whats happened dear” واٹس ایپ پیغام کے ساتھ چند سماجی رابطوں فیس بک اور ٹوئٹر کے سکرین شاٹ موجود تھے. پیغام بھیجنے والا کوئی غیر نہیں دیرینہ دوست تھا، سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی کیچن کیبنٹ کا حصہ تھا، چیف جسٹس کے قریب 4 سے 5 افراد ہے عمومی طور پر ہوتے، وہ اپنے ساتھ غلام رضا جوکہ ان کے سیکرٹری تھے، ان صاحب کو، رجسٹرار یا ذاتی ملازم ہی صرف ساتھ رکھتے، زیادہ سٹاف نہ ہوتا. بندہ ناچیز نے سکرین شارٹ پر نظر دوڑائی حسین نقوی صاحب سینئرصحافی جنہیں صحافت کی یونیورسٹی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا. ان کے خلاف چیف جسٹس کے الفاظ اورنازیبا رویہ کی پرزور مذمت کی گئی تھی، اصل واقعہ سے بندہ ناچیز بھی نا واقف تھا.۔۔
ان دنوں چھٹیوں پر گاؤں میں تھا، میں نے اپنے قریبی دوست سے وقت مانگا تا کہ معاملے کی حقیقت کو معلوم کر سکوں. دیگر واٹس ایپ گروپ میں بھی صحافیوں کی طرف سے مذمتی بیانات آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگے.سوچ میں تھا کس سے رابطہ کروں تا کہ اصل حقائق تک پہنچا جا سکے. شاہین قریشی صاحب جنگ کے گروپ ایڈیٹر کا اسٹیٹس دیکھا تو خیال آیا ان سے بہتر کون بتا سکتا ہے، انہیں پیغام بھیجا بابا آپ جاگ رہے ہیں، کیامیں کال کر سکتا ہوں؟ پیغام پہنچتے ہی ان کی کال آگئی، حسب معمول پیار بھری آواز میں پیاری شخصیت بولی بیٹا جی! آج غضب ہو گیا، ان کی شائستہ آواز اچانک افسوسناک لہجے میں بدل گئی، آخر ہوا کیا؟ میں نے دریافت کیا. بیٹا آج چیف جسٹس نے ہمارے استاد محترم کیساتھ انتہائی غلط رویہ اپنایا ہے، جو نہ صرف میرے لئے بلکہ ملک کی صحافتی برادری کے لئے لمحہ فکریہ اورباعث شرم ہے. کب تک اور کہاں تک برداشت کیا جائے؟ انکے لہجے میں ایک سوال چھپا تھا. شاید چیف جسٹس حسین نقی کی شخصیت سے واقف نہیں ورنہ ایسے الفاظ استعمال نہ کرتے، انہوں نے جتنی مذمت ہو سکتی تھی کی اور اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا.
میں اس کال کے بعد اور دوست سے رابطہ کرنے کی کوشش کرنےلگا، چند لمحوں بعد رابطہ ہوا. دوست ساری کاروائی کے دوران وہاں پر موجود تھا،اس نے تمام صورتحال سے آگاہ کیا. میں نے پیغام بھیجنے والے سپریم کورٹ کے دوست کو جواب دیا، آج عدالت میں ہم سب کے عظیم بزرگ کی آپ کے چیف جسٹس نےذاتی ملازم یا اداروں کا سربراہ سمجھ کر سرزنش کی ہے اور نا قابل برداشت رویہ اپنایا ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، جواب آیا آج اتوار ہے کیا کوٹ کھلا تھا؟ ان دنوں چیف جسٹس خاص کیسز کی سماعت اتوار کے روز بھی کرتے تھے۔۔موصوف نے بتایا کہ وہ خود ان دنوں چھٹی پر ہے اور اپنے گاؤں ہے. یہی تاثردینے لگا جیسے اسے رات کے اس پہر گاوں میں الہام ہوا تھا. مگرمیں نے اسکے بعض سوالات سے اندازہ لگا لیا کہ اسے خصوصی ٹاسک سونپا گیا تھا. تاکہ معاملے کی نوعیت اور جانچ پڑتال کرسکے. کیونکہ اگلے دن تمام سپریم کورٹ کے بیٹ رپورٹرز، سینئر صحافی عدالتی کاروائیوں کا بائیکاٹ کرنے والے تھے اور شدید احتجاج ریکارڈکروانا چاہتے تھے. اصل میں چیف جسٹس نے صحت کے شعبے میں اصلاحات پر کمیٹی بنائی تھی. جس کی سربراہی جسٹس عامر رضا کررہے تھے، اس کمیٹی میں صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی تھیں. حسین نقی کا نام کمیٹی میں شامل کر لیا گیا. اختلاف رائے رکھنا ہر کسی کا حق ہے، اصلاحات کمیٹی کا اجلاس ہوا شاید کسی نقطہ پر کمیٹی کے دیگر ممبران سے حسین نقی کااختلاف ہوا، احتجاجا انہوں نے استعفی دے دیا.جب عدالت میں طلبی ہوئی، حسین نقی کے ساتھ دیگرصحافی دوست بھی ہمراہ تھے. چیف جسٹس نے با آواز بلند کہا “کہاں ہے حسین نقی” جی میں ہوں حسین نقی، وہ ہجوم سے برآمد ہوئے. چیف نے اسی تکبرانا لہجے میں پوچھا” تم چیز کیا ہو؟” حسین نقی کے چہرے پہ غصہ چھلک رہا تھا مگر وہ ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دے رہے تھے. حسین نقی ترکی با ترکی جواب دینے لگے، ایسا محسوس ہوا چیف کے پاس دلائل کم پڑ گئے اور وہ طاقت کے استعمال پر اتر آئے ہیں. انہوں نے کہا” اسے میری عدالت سے باہر لے جاؤ” ایک پولیس والا روسٹر کے قریب آیا اور حسین نقی کو زبردستی باہر لے جانے کی کوشش کرنے لگا. حسین نقی نے سوالیہ انداز میں کہامجھے آپ بغیر سنے باہر نہیں نکال سکتے. چیف جسٹس نے کہا اوکے پھر مجھ سے معافی مانگو، حسین نقی ایک باظرف انسان ہیں، شاید موقع کی مناسبت سے انہوں نے معذرت کی.مزید بولنے لگے تو چیف جسٹس نے چلاتے ہوئے کہا” تمھاری جرات کیسے ہوئی جسٹس عامر رضا سے بدتمیزی کرنے کی” حسین نقی نے جوابا” کہا “میں ان سے عمر میں 20 سال بڑا ہوں میں نے ان سے استعفی نہیں مانگا” صرف اتنا ہی کہا تھا کہ چیف جسٹس بولے “take him out of my court” حسین کہنے لگے مجھے سن تو لیجئے، مگر چیف نے کب کہاں کس کی سنی تھی، جو ان کی سنتے.85سال کے بزرگ کو بغیر سنے بنا دلائل، بنا شواہد جیسے قتل کے جرم میں سزا سنا دی گئی ہو. وہاں موجودصحافی برادری دل میں سراپا سوال تھی اور شدید غم وغصے میں تھی. سوشل میڈیا پر جس کے منہ میں جو آیا غصہ چیف کے خلاف نکال دیا.
سوشل میڈیا پر جس کے منہ میں جو آیا غصہ چیف جسٹس کے خلاف نکالا جا رہاتھا، اگلےلائحہ عمل کی تیاری جاری تھی، چیف کو صحافتی پلان کی بھنک لگ چکی تھی، چیف جسٹس کے خاص سرکاری افسرمختلف ذرائع سے تفصیلات لے چکے تھے. اگلے دن جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ارکان محمد شہباز میاں، ارشد انصاری، ضیاءاللہ نیازی، سینئر صحافی شفیق اعوان، گوہر بٹ اور تمام کورٹ رپورٹر سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پیش ہوئے، میاں شہباز نے چیف جسٹس سے کہا کہ عدالت کا احترام سب پر واجب ہےمگر آپ کے رویے کے باعث پوری صحافی برادری کی دل آزاری ہوئی ہے، حسین نقی صاحب ہماری تین نسلوں کے استاد ہیں. چیف جسٹس نے انتہائی دھیمے اور شفیق لہجے میں کہا “ہماری کوئی انا نہیں حسین نقی آپ کے استاد ہیں،تو ہمارے بھی استاد ہیں، آپ کیا چاہتے ہیں ہم انہیں ہیلتھ کیئر کمیشن میں دوبارہ شامل کر کے ان کی دادرسی کریں؟جوآپ کہیں کرنے کو تیار ہیں.” جس پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا حسین نقی عہدوں سے بالاتر ہے. ہمیں صحافتی برادری اور حسین نقی کی عزت و احترام مقصود ہے. یہ وہ دن تھا جب صحافی برادری کی جیت ہوئی، آزادی رائے اپنا مقدمہ جیت چکی تھی.(تحریر خضرحیات کورائی،نیوز اینکر)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کالم کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)