تحریر: وجاہت علی خان۔۔
آزاد و خود مختار صحافت وہ بنیادی ادارہ ہے جو لوگوں کو اُنہیں درکار معلومات تک رسائی دیتا ہے، جس کے ذریعہ وہ اپنے حق کے لئے بولتے ہیں اور آگاہی پر مبنی فیصلہ کرنے کے لئے آزاد ہوتے ہیں چنانچہ اطلاع اور علم طاقتور ذرائع تسلیم کئے گئے ہیں۔ کسی ملک کا میڈیا کس قدر آزاد اور متنوع ہے اس کا اندازہ میڈیا کو حاصل آزادیوں سے لگایا جاتا ہے اور آزادیٔ اظہارِ رائے سے ہی اچھی یا بری حکومت کی دلیل دی جا سکتی ہے۔ چوتھی صدی قبل از مسیح کے ’’چینی ریاستوں کے تذکرے‘‘ میں ایک قول انتہائی مشہور ہے کہ فلسفی ڈیوک زہاؤ نے بادشاہ وقت سے کہا ’’لوگوں کی زبان کو روکنا کسی دریا کو روکنے سے بدتر ہے‘‘۔ فریڈم آف پریس پر حالیہ ماہ کے آغاز میں شائع شدہ رپورٹ جسے پیرس کی تنظیم ’’رپورٹر ود آؤٹ بارڈرز‘‘ نےشائع کیا ہے، میں لکھا ہے کہ دنیا کے 180ممالک کی فہرست میں میڈیا کی آزادیاں سلب کرنے اور صحافیوں کو دھمکانے کے لحاظ سے 37حکمران بدترین ہیں، ان میں ایک پاکستان کے وزیراعظم بھی شامل ہیں۔ اِس فہرست میں شامل حکمرانوں کو ’’آزادیٔ پریس کے شکاری‘‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اِس فہرست میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد، روسی صدر پیوٹن، سعودی شہزادہ محمد بن سلمان، شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ، ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای اور ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لیم بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو صحافت کے لئے مہلک جگہ کہا گیا ہے جو یقیناً عوام بشمول حکومت اور ریاستی اداروں کے لئے لمحۂ فکریہ اور مقامِ افسوس بھی ہے۔
مذکورہ رپورٹ توجہ کی متقاضی اس لئے بھی ہے کہ پاکستان کو میڈیا کی آزادی کے نکتے پر بلیک لسٹ میںشامل کیا گیا ہے۔ اس فہرست کے مطابق پاکستان اگرچہ 180ممالک میں بہت سے ممالک سے بہتر ہے لیکن اپنے ہمسایہ ملکوں بھارت، سری لنکا، یو اے ای حتیٰ کہ افغانستان سے بھی بری پوزیشن پر ہے کیونکہ اظہارِرائے اور میڈیا کی آزادیوں کے اعتبار سے یہ ممالک پاکستان سے بہتر ہیں یعنی پاکستان کا نمبر 45واں ہے۔ بھارت 142، یو اے ای کا 131، سری لنکا 127یہاں تک کہ یوگنڈا جیسا ملک بھی پاکستان سے بہتر پوزیشن پر ہے۔ اس فہرست میں پہلے نمبر پر ناروے، دوسرے پر فن لینڈ، تیسرے پر سویڈن، چوتھے پر ڈنمارک جبکہ برطانیہ 33ویں اور امریکہ 44ویں نمبر پر ہے۔ ابھی دو مہینے پہلے ’’پاکستان پریس فائونڈیشن‘‘ نے بھی گزشتہ سال یعنی 2020کو پاکستان کی آزادی صحافت کے لئے تاریک ترین قرار دیا اور صحافیوں کو حکومت اور اس کے اداروں کی طرف سے مختلف طریقوں سے نشانہ بنانے اور میڈیا پر قدغنیں لگانے کے لئے انواع و اقسام کی قانون سازی پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق قتل، براہ راست حملوں، اغوا کے ساتھ ساتھ میڈیا کے کارکنوں کو دھمکیاں دیے جانےکا سلسلہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔
یقیناً پاکستان میں آمرانہ ادوار میں بھی صحافت کلیتاً آزاد نہیں رہی ہے لیکن حالیہ آزادیٔ صحافت کے لئے بدترین اِس لئے بھی کہا جا سکتا ہے کہ اِس حکومت نے میڈیا کے مواد کو براہِ راست کنٹرول کرنے کے لئے مختلف ریگو لیٹری اداروں کے ذریعے تمام پلیٹ فارمز پر اضطراب کا باعث بننے والے قوانین بنا کر ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے جہاں میڈیا کو سنسر کرنے کے علاوہ صحافیوں کو بھی سیلف سنسر شپ کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ گزشتہ تین سال میں نہ صرف میڈیا ہائوسز کے مالکان کو بغیر کوئی جرم ثابت ہوئے طویل عرصہ تک قید میں رکھا گیا بلکہ ذرا ’’اونچا بولنے‘‘ والے صحافیوں سے ان کی ملازمتیں بھی چھینی گئیں، ٹیلیوژن اسکرینز سے انہیں آئوٹ کیا گیا، کووڈ 19کے اس دورِ ابتلا میں بھی سچ کو چھپانے کے لئے حکومت نے صحافیوں کے گرد ’’جال‘‘ بچھائے رکھا اور انہیں خوف کے ساتھ ساتھ معاشی پریشانیوں کا شکار رکھا جس کے نتیجہ میں متعدد صحافیوں اور میڈیا کارکنوں کی جانیں بھی گئیں۔ حکومت کی سوشل میڈیا ٹیم نے خواتین صحافیوں کو ٹرولنگ اور مربوط حملوں کا نشانہ بھی بنائے رکھا۔ جنوری 2020سے اپریل 2021تک ایک صحافی کا قتل، صحافیوں نظربندی کے دس واقعات، اغوا کے چار، براہ راست حملوں کے 16، دھمکیوں کے 13اور چھاپوں و ان پر حملوں کے 4واقعات رپورٹ ہوئے، انٹرنیٹ پر پابندی یا بلیک آئوٹ کے 5واقعات ہوئے جبکہ ’’پیمرا‘‘ کی طرف سے 22ایسے آرڈرز دیے گئے جو آزادیٔ اظہارِ رائے پر پابندی اور قدغن کے زمرے میں آتے ہیں تو پھر دنیا ہمارے لئے ’’آزادیٔ پریس کے شکاری‘‘ جیسے جملے اگر استعمال کرتی ہے تو ہمارے پاس، اسے روکنے کے لئے کیا جواز باقی رہ جاتا ہے؟
درست ہے کہ حکومت یا حکمرانوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں یا صحافتی اداروں کے لئے اظہار ناپسندیدگی کوئی نیا چلن نہیں ہے لیکن پاکستان دیگر دنیا سے یکتا اس لئے ہے کہ دیگر ممالک میں ان ذرائع ابلاغ یا صحافیوں کے خلاف پس پردہ رہ کر خفیہ طریقے سے مہم چلائی جاتی ہے لیکن پاکستان میں علانیہ طبلِ جنگ بجایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب وقت کا حکمران کیمرے کے سامنے ببانگِ دُہل نام لے کر کہے ’’میں تمہیں نہیں چھوڑں گا، تمہیں جیل میں ڈالوں گا‘‘ تو پھر غیرجانبداری جیسے الفاظ بےمعنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہماری حکومت دیگر ممالک سے صحافیوں کی کردار کشی کرنے والی حکومتوں میں اس لئے بھی یکتا ہے کہ یہاں جب چاہے اور جس کو چاہے ملک دشمن، غدار بنا کر راندہ درگاہ کر دیا جاتا ہے اور ناکردہ گناہ کی سزا میں بدنام تو کیا جاتا ہے، ساتھ ہی اس کی جان کو بھی خطرے میں ڈالنے سے گریز نہیں کیا جاتا کیونکہ عام لوگ حقائق کو جاننے کی بجائے حکومتی پروپیگنڈہ پر یقین کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو اِس فہرست سے باہر نکلنے کے لئے زیادہ کچھ نہیں بلکہ فقط ’’صحافت‘‘ کو آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔