تحریر*آغاخالد
اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق آج 3 مئی 2020 آزادی صحافت کادن ہے،اتوار۔۔عموماً دفتر کی چھٹی کے مزے لینے کادن ہوتاہےاور اتواربھی رمضان کاہوکہ سب گھروالے سحری کرکے سوئےہوں تو اور بھی سناٹےدارسکون کی آغوش میں نیندکے مزے دوبالا ہوجاتےہیں مگر ایسے میں کے الیکٹرک کی بھینٹ چڑھ جائےبندہ تومزہ ٹوٹ جاتا اورخواب بکھرجاتےہیں خیرہم بدقسمت کراچی والےتو ویسے بھی بجلی کی بےوفائی کےعادی ہوچکےہیں کہتےہیں انسان تنوٌع گیرہےاس لئےشایداب بجلی بندکرنےکےخلاف مظاہروں،سڑکوں کی بندش اورتنقیدی مضامین، سب پرانےاور منہ کاذائقہ خراب کرنےجیسےلگتےہیں کہ شہریوں نےسب کچھ کرکےدیکھ لیا،اس اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں، میں گلستان جوہرکراچی کےایسےبلاک میں رہتاہوں جس میں سوسائٹیاں زیادہ بنائی گئیں اور سوسائٹیوں میں رہنےوالےعموماًقانون پسند ہوتےہیں اس لئےکراچی الیکٹرک کی اپنی رپورٹ کےمطابق یہاں بلوں کی ریکوری سوفیصد ہوتی ہےمگربدقسمتی کہ اس کےباجود بجلی صبح 9 بجےسےبندہےاوراب سہ پہرکے4 بج رہے ہیں اورمیں پسینےمیں شرابورہوں رونا یہ ہے کہ یہ کھیل پچھلے 15 روز سے جاری ہے دراصل ہم سب گھروالےایک ہی کمرہ میں سوتے ہیں اے سی کےالگ الگ بل کےخوف نے معاشرتی رشتوں کی محبت کودوبالاکردیاہے،میں جب کبھی اپنےپسندیدہ چینل”نیشنل جیوگرافک“ میں دریائی گھوڑے کوخوفناک منہ پھاڑےدوسرے درندوں کی طرف بڑھتے دیکھتاہوں توکراچی الیکٹرک کا بل یادآجاتاہے،خیریہ یونہی بحث بیچ میں آگئی، میں روزجیساسہی مگرباقی سب گھروالے پابندی کےساتھ روزے سے ہوتےہیں اور محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کےمطابق آج درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی گریڈتک ہوسکتاہےمیں روزہ داروں کےآرام کی خاطرکمرہ چھوڑکرصحن میں آبیٹھا جہاں قدرت کا اے سی کام کرہاہے اور وقت پاس کرنے کوجونہی موبائل کھولا تو پہلے مذاق نےمنہ پرزناٹےدارتھپڑرسید کردیا،لکھاتھا”اقوام متحدہ کےچارٹرکےمطابق آج آزادی صحافت کادن ہے۔۔
مجھے سمجھ نہیں آرہاکہ میں روئوں یاہنسوں بہر صورت انسان اپنی ناکامیوں کو دوسروں کی مشکلات سےتولتاہےتو صبرکی لوری اسے سکوں کی آغوش فراہم کردیتی ہے،میرےذہن نےبھی یاداشتوں کےجنگل کو کھنگال کرراستہ نکال ہی لیا،جنگ اخبار کو لوگ بہت طاقت ور اور ناقابل تسخیر ادارہ سمجھتے ہیں۔۔یہ آصف زرداری کی وفاق میں حکومت کے دور کا قصہ ہے، یعنی دوہزار آٹھ سے بارہ کے درمیان۔کے الیکٹرک کے سربراہ تابش گوہر تھے جو دبئی سے تشریف لائے تھے۔۔ ان کے لئے زباں زدعام تھا کہ آنے سے پہلے زداری صاحب کو کے الیکٹرک میں کچھ شیئرآفر کرکےان سے کچھ وعدےوعیدلینےمیں کامیاب ہوگئےتھے،جس میں یہ نکتہ بھی شامل تھاکہ ان کی حکومت کا کوئی وزیر سفیر کے الیکٹرک کےانتظامی امورمیں مداخلت نہیں کرےگااوریہ کامیابی جیب میں ڈالے گوہر نےپاکستان پہنچتے ہی سب سے پہلےمزدوریونین کواکھاڑ پھینکاجوآج تک بیچارے اپنےزخم چاٹ رہے ہیں پھرانھوں نےخودساختہ بلوں کےریٹس مقررکئےاورشہریوں کی چیخیں نکلوادیں ایسےمیں میں نے یونین کے ساتھ کی گئی زیادتیوں اوریکطرفہ ٹیرف کےخلاف کئی خبریں چلائیں جو جنگ،دی نیوز اورعوام میں چھپیں،ایک روز مجھے جنگ گروپ کے ایک سینیرافسرکافون آیااورانھوں نے بڑی شائستگی سےملنےکوکہا، یہ میر صحافت میر شکیل الرحمان کی بڑی خوبی ہےکہ انھوں نے جنگ کوایسااداہ بنایاجس میں ہرصحافی کی عزت نفس کاخیال رکھاجاتاہےاورکوئی افسربربنائےعہدہ کسی چھوٹے سے چھوٹے صحافی کی توہین نہیں کرسکتا میں ان کی خدمت میں پیش ہواتو انہوں نےادھرادھر کااحوال کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا،
کےالیکٹرک والوں سےکوئی مسلہ ہے،مجھے جھٹکالگا،نہیں تومیں نےکچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا،وہ کھل کر بولے،آپ کی خبروں میں آج کل کےالیکٹرک زیادہ نظرآرہی ہےپھر وہ اپنی بات کی خود ہی وضاحت کرتے ہوئے بولے،میرامطلب ہرگزیہ نہیں کہ آپ کی خبریں غلط ہیں وہ مزیدگویاہوئےآپ سےبات کرنےکامقصدیہ ہے کہ آپ کے علم میں لایاجائےکہ چند ماہ قبل کےالیکٹرک نےجنگ پریس(جاویدپریس)کی بجلی کاٹ دی تھی ایسی ہی خبروں پرناراض ہوکرپھروہ ایک لمباسانس کھینچ کربولےآج کل ادارے کی زرداری صاحب سےنہیں بن رہی وہ اپنی حکومت کےمالی اسکینڈلزچھاپنےپرہم سےسخت ناراض ہیں اورکےای ان کی پارٹنر ہےتو شایدپریس کی بجلی منقطع کرنےکی پشت پروہ بھی ہوں مگراس سےادارہ کوبہت نقصان اٹھاناپڑاکیونکہ پریس کی بھاری بھرکم مشینری جنریٹرسےچلاکرروزانہ اخبارچھاپناپڑتاتھاجوڈیزل پرچلتاہےاس طرح ادارےکوروزانہ لاکھوں روپیہ کانقصان برداشت کرناپڑرہاتھاپھروہ دکھی ہوکربولے،اس وجہ سے ہمیں ان کی شرائط پرصلح کرناپڑی،
میں ان کےچہرےپرچھائی بےبسی دیکھ کران کہی ساری داستاں سمجھ گیامیں نے بس اتناکہا،سرآپ فکرنہ کریں مجھےبھی ادارےکامفادبہت عزیزہےآئندہ احتیاط کرونگا،
قارئین آپ کےبھی ان کہےسوال کاجواب یقیناًآپ کومل گیاہوگاکہ کے الیکٹرک سے آزادی صحافت کاکیاتعلق؟کئی برس بعداب جبکہ میں جنگ گروپ کاحصہ نہیں رہاتوبھی کےالیکٹرک کی وجہ سےاتوار اور چھٹی کادن بھی اپنے بچوں کےساتھ سکھ سے نہ گزارسکاحالانکہ آج اقوام متحدہ کے چارٹرکےمطابق۔۔ آزادی صحافت کا دن ہے۔۔(آغا خالد)۔۔
(آغاصاحب کراچی میں کافی عرصے سے رپورٹنگ کررہے ہیں اور باخبر صحافیوں میں شمار ہوتے ہیں، مذکورہ تحریر ان کی فیس بک وال سے لی گئی ہے۔ جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔