تحریر: حامد میر۔۔
پاکستان کا آئین دو مرتبہ پامال کرنے والے فوجی حکمران جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اپنا آخری وقت پاکستان میں نہ گزار سکے ۔سات فروری کوکراچی میں ان کی اعلیٰ فوجی اعزاز کے ساتھ تدفین، ہمیں بہت کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع دے رہی ہے۔ اس تدفین میں پہلا سبق تو یہ ہے کہ جرنیل ہمیشہ جرنیل کے ساتھ کھڑا ہو تا ہے خواہ عدالت نے اسے غدار ہی کیوں نہ قرار دیا ہو ۔ سیاست دان اکثر اوقات سیاست دان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوتا اور اسی لئے پاکستان میں فوج کو پارلیمان سے زیادہ مضبوط ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ جب 2019ء میں ایک خصوصی عدالت نے جنرل پرویز مشرف کو آئین سے غداری کے الزام میں موت کی سزا سنائی تو عمران خان وزیر اعظم اور جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف تھے ۔
وہ دن پاکستان کے میڈیا پر شدید دبائو کا دن تھا ۔عمران خان کی کابینہ کے وزراء نے ایک پریس کانفرنس کرکے مشرف کو سزا سنانے والے جج وقار سیٹھ کے خلاف انتہائی تضحیک آمیز الفاظ استعمال کئے اور سزا کو مسترد کر دیا۔ وہ مشرف جس نے 2007ء میں ایمرجنسی لگا کر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے ججوں کوگھروں پر قید کر دیا تھا، اسی مشرف کو پاکستان کی عدلیہ سے ریلیف مل گیا۔آئین شکنی کی سزا سنانے والے جج کے پیچھے نہ پارلیمان کھڑی ہوئی نہ عدلیہ کھڑی ہوئی۔مشرف کی تدفین میں ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کی شرکت قابل فہم ہے کیونکہ یہ جماعت طویل عرصہ تک مشرف حکومت میں شامل رہی۔
اس تدفین میں تحریک انصاف کے فواد چودھری اور عمران اسماعیل سمیت دیگر کئی رہنمائوں کی شرکت بڑی قابلِ غور ہے۔میں 12مئی 2007ء کا دن نہیں بھول سکتا اس دن کراچی میں ایم کیو ایم والے مشرف حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے والوں کو گولیاں مار رہےتھے اور عمران خان اسلام آباد میں جیو نیوز کی لائیو ٹرانسمیشن میں میرے سامنے بیٹھ کر مشرف کو ایک دہشت گرد قرار دے رہےتھے ۔اس دن خان صاحب نے جیو کے ذریعے بہت مقبولیت حاصل کی لیکن اس مقبولیت کی قیمت میں نے اور جیو نے پابندیوں کی صورت میں ادا کی۔
کچھ نادان آج مشرف کو آزاد میڈیا کا بانی قرار دیتے ہیں‘ یہ دعویٰ ایک ڈھکوسلا ہے ۔مشرف دور میں مجھ سمیت کئی صحافیوں پر پابندیاں تاریخ کا حصہ ہیں اور یہی وہ دور تھا جب امریکی ڈرون حملوں کا بھانڈا پھوڑنے پر شمالی وزیرستان کے صحافی حیات اللہ خان کو اغوا کرکے شہید کیا گیا۔
اسی عہدِ ستم میں ایک صحافی شکیل ترابی پر دبائو ڈالنے کے لئے ان کے بچوں کے سکول میں گھس کر انہیں مارا گیا اور جب میں نے اس پر احتجاج کیا تو ظالم لوگ میرے بچوں کے پیچھے ان کے سکول پہنچ گئے۔جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی وفات کے بعد میں ان کے بارے میں تلخ نوائی سے گریز کرتا رہا لیکن وہ ہماری تاریخ کا حصہ ہیں اور پارلیمان کے ایوان بالا میں ان کے لئے دعائے مغفرت پر جو گرما گرمی ہوئی وہ یہ تقاضا کرتی ہے کہ موصوف کے جسد خاکی کو قومی پرچم میں لپیٹ کر دفن کرنے والے سوچیں کہ ایسا کیوں ہوا ؟جنرل باجوہ نے اپنے ’’کمالِ فیض‘‘ سے مشرف کو سنائی جانے والی سزا کو تو غیر موثر کرادیا لیکن اکبر بگٹی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی وجہ سے مشرف کے خلاف پھیلنے والی نفرت کو ختم نہ کرسکے۔
میری مشرف سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی، میں ان چند صحافیوں میں شامل تھا جنہیں موصوف نے جنوری 1999ء میں کارگل آپریشن کے بارے میں بریف کیا اور صرف تین دن میں کشمیر کو آزاد کرانے کا عزم ظاہر کیا۔ بعدازاں یہ کارگل آپریشن کشمیر کی تحریک آزادی پر دہشت گردی کا لیبل لگانے کا باعث بنا اور پھر یہ 12اکتوبر 1999ء کی فوجی بغاوت کا باعث بھی بنا۔
میرا اختلاف اس وقت شروع ہوا جب میں نے ہائی جیکنگ کیس میں نواز شریف کو سزائے موت دینے کی مخالفت کی۔ نواب اکبر بگٹی ابھی حیات تھے اور مجھے ان کے خلاف آپریشن کی لائیو کوریج کے منصوبے کا حصہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
انکار کے بعد سنگین نتائج سے بچنے کے لئے مجھے کچھ دنوں کے لئے بیرون ملک جانا پڑا۔ مشرف کے ایک قریبی ساتھی جو آج کل تحریک انصاف میں ہیں، انہوں نے مجھے بتا دیا کہ اس نے کچھ صحافیوں کو خریدنے کا حکم دیا ہے اور تم بھی ان میں شامل ہو۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں لیکن مجھے جسٹس افتخار چودھری کے خلاف صرف ایک پروگرام کرنے کے 15 کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی۔
جب معذرت کی تو کہا گیا کہ ہمیں گولی مارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ایک ٹریفک حادثہ کافی ہوگا۔ مشرف کو کشمیری لیڈر سید علی گیلانی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ میرے تعلقات بہت برے لگتے تھے۔ فرمایا کرتے میرا ہر دشمن تمہارا دوست کیوں ہے؟ میں عرض کرتا کہ میں صحافی ہوں مجھے سب سے رابطہ رکھنا پڑتا ہے یہاں تک کہ اسامہ بن لادن سے بھی ملاقات کرنی پڑتی ہے۔
ایک دفعہ انہوں نے سختی سے تاکید کی کہ میری ڈاکٹر قدیر سے ملاقات نہ ہونے پائے۔ وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز میں بلایا اور اپنے دفتر میں بیٹھ کر مشرف کے بارے میں ایسی باتیں کیں جس کے بعد ناصرف ان کیلئے بلکہ میرے لئےبھی خطرات بڑھ گئے۔
رہی سہی کسر میر ظفر اللہ خان جمالی نے نکال دی انہوں نے مجھے بتا دیا کہ ڈاکٹر قدیر کو امریکہ کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوچکا لیکن میں نے انکار کردیا ہے لہٰذا میری چھٹی ہونے والی ہے۔ اس معاملے پر کچھ کہنا اور لکھنا آج بھی بہت مشکل ہے لیکن جبار مرزا صاحب نے اپنی کتاب ’’آخری بڑا آدمی‘‘ میں بہت سے حقائق لکھ ڈالے ہیں ۔
لکھتے ہیں کہ مئی 1999ءکے کارگل آپریشن کے دوران جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر قدیر سے کہا کہ ہمیں فوری طور پر شمالی کوریا سے چھوٹے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل لاکر دیں۔
ڈاکٹر صاحب نے جنرل افتخار شاہ (سابق گورنر خیبرپختونخوا) کوساتھ لیا اور شمالی کوریا چلے گئے اور 200 میزائل لے آئے۔ اس دوران کارگل کی جنگ بند ہوگئی تو مشرف نے ڈاکٹر قدیر سے کہا کہ ہمیں میزائلوں کی ضرورت نہیں رہی آپ یہ میزائل واپس کردیں، ہم رقم ادا نہیں کریں گے۔
ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ریاستوں کے لین دین میں ایسا نہیں ہوتا قوموں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ بات حکومت وقت کو بتا دی جس پر مشرف ان سے سخت ناراض ہوگئے۔
جبار مرزا نے پاکستان ٹیلی ویژن پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے زبردستی دلوائے گئے ایک بیان کا پورا پس منظر لکھ دیا ہے ۔یہ وہ دن تھا جب ناانصافی اور احسان فراموشی بھی اپنا منہ چھپاتی پھر رہی تھی ۔محسن پاکستان سے زبردستی ایک اعتراف جرم کروانے کے منصوبے پر عملدرآمد کی ذمہ داری اس وقت کے وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد اور وزارت اطلاعات کے اہم افسروں کو دی گئی اور شیخ صاحب نے یہ کام کرکے مشرف سے شاباش حاصل کی۔
پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والا سائنس دان ولن بنا دیا گیا اور دو دفعہ آئین توڑنے والا جرنیل آج بھی جنرل باجوہ کا ہیرو ہے ۔اس المیے کے پیچھے وہ نفرتیں انگڑائیاں لیتی نظر آتی ہیں جو ریاست اور عوام میں فاصلے بڑھا رہی ہیں۔
مشرف نے اپنی کتاب ’’ ان دی لائن آف فائر‘‘ میں پاکستان کے آئین کو ناقص قرار دیا اور کہا کہ نیا آئین تو بن سکتا ہے نیا ملک نہیں بن سکتا اس لئے ملک بچایا جائے۔ مشرف صاحب چلے گئے لیکن ان کی یہ سوچ آج بھی زندہ ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ ملک کی بقاء آئین کی بالادستی سے مشروط ہے جو آئین سے وفادار نہیں وہ پاکستان کی بقاء کیلئے خطرہ ہے۔(بشکریہ جنگ)