تحریر: برکت علی
ایوب بھی مرگیا۔۔یہ موت ایوب کی نہیں ان تمام صحافتی تنظیموں کی ہے جواپنے الوسیدھے کرنے کے لیےمالکان کے ٹٹوبنے ہوئے ہیں ۔۔۔۔عجیب ساآدمی تھا۔۔سرمیں چلاجاوں ۔۔بیٹھ جا۔۔۔ایوب نےسننااوراپنےساتھی کوبولناکہ یارلگتاہے کہ آج کام زیادہ ہے۔۔صبح سے لیکررات گئے تک ۔ ۔ڈیوٹی ختم ہونے کے باوجود بھی اس نے کبھی کام سےمنہ نہ موڑا۔۔اکثرایساہوتاکہ اس سے میں کہتاایوب بھائی گھرجاو۔کسی اورکوبھی کرنے دو۔ ۔مگرمعلوم نہیں اسے کام سے کیوں اتنی عقیدت تھی کی وہ جنوں کی طرح کام میں لگارہتا۔شائددوبرس قبل ایک اسکاساتھی کیمرامین میرے پاس لیکرآیا۔۔کام میں لگاتھاکہاسرکام ہے ۔۔جس پرمیں نے کہایارایوب تھوڑاکام میں پھنساہوں بلیٹن کےبعد بات کرتے ہیں ۔وہ چلاگیاآٹھ بجے کے قریب میں نے دیکھاوہ ڈرائیورکےساتھ بیٹھاتھا۔۔ساتھی کے ساتھ آیااورکہاسرشادی کررہاہوں ۔۔میں نے مذاق میں کہاایوب کون اندھاہے جوتمہیں بیٹی دے رہاہے ہنسنے لگاباس آپ نے بھی توکرلی ہے۔۔مزاآگیااس کے جواب کا۔۔بہرحال میں نے اسے تسلی دی کہ مولاکرم کریگا۔۔شادی سے قبل ہی تمام ترمعاملات اس کے طے پاگئے ۔۔بہت شاداں تھا۔۔۔۔شادی بھی ہوگئی ۔۔جس ادارے میں ایک جگہ تھے وہ بندہوگیا۔۔ملاقات ہی نہیں ہوپائی۔۔کراچی پریس کلب پرسینئرصحافی بچل لغاری کے ساتھ موٹرسائیکل پربیٹھے دیکھاتومیں اسے پاس چلاگیا۔۔بھاگتاہوامیں نے شادی میں نہ بلانے کاشکوہ کیاتورنجیدہ ہوگیا۔۔۔گلے سےلگایاکہ بھائی میں بالکل بھول گیاتھاآپ کودیکھ کریادآیابہت کچھ کہااس نے جویہاں تحریرکرنے کےقابل نہیں ۔۔۔۔عجیب شخص تھاکبھی گلہ شکوہ تواسکے مزاج میں تھاہی نہیں ۔۔۔تنخواہوں کانہ ملنا۔۔صحافتی اداروں میں ایک معمول بن چکاہے ۔۔مگرکوئی کرےتوکیاکرے ۔۔صحافتی تنظیموں کے دلال صرف اپنے الوسیدھے کرنے اورمالکان کی نوکری میں لگے ہیں ۔لیفٹ اوررائٹ کی سیاست میں ماراجا رہا ہے توغریب صحافی ۔شادی کےبعد ایوب بہت خوش تھا۔۔مگرتنخواہوں کے نہ ملنے پررنجیدہ ضرورتھا۔۔کیااس کے انتقال کےبعد دھرتی والے یا صحافتی تنظیمیں جاگیں گی ۔۔۔نہیں ایسانہیں ہے ایسے کئی ایوب مزیدتیاربیٹھے ہیں ۔۔بس اس صحافت میں کچھ بچاہےتووہ خوشامدچاپلوسی منافقت اور گروپنگ ۔۔صحافت نام تھاجس کا۔۔گئی وہ پاکستان کے گھرسے۔۔(برکت علی)
(ریجنل چینل کے کیمرہ مین کی اچانک موت پر پبلک ٹی وی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی برکت علی کی پراثر تحریر، جو ان کی فیس بک وال سے لی گئی ہے۔۔ جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)