ayesha ki koi recording nahi ki

عائشہ کی کوئی ریکارڈنگ نہیں کی، اقرار الحسن۔۔

اے آر وائی نیوز کے اینکر پرسن اقرار الحسن کا کہنا ہے کہ ان کا اور ڈیلی پاکستان کے اینکر یاسر شامی کا مینار پاکستان واقعے کی متاثرہ لڑکی عائشہ اکرم کے ساتھ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) پر درج نمبر کے ذریعے رابطہ ہوا۔ وہ متاثرہ لڑکی کی بہادری سے متاثر تھے کیونکہ عمومی طور پر ایسے کیسز میں لڑکیاں بدنامی کے خوف سے سامنے نہیں آتیں لیکن عائشہ نے واقعے کی ایف آر آر درج کرائی، اسی لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ متاثرہ لڑکی کی ہر ممکن مدد کی جائے۔یوٹیوب پر اپنے ویڈیو پیغام میں اقرار الحسن نے بتایا کہ وہ یاسر شامی کے گھر پر بیٹھے ہوئے تھے جب انہیں مینارِ پاکستان واقعے کی ویڈیو موصول ہوئی۔ رات کو 12 بجے یاسر شامی کے گھر بیٹھے ہوئے ہم بھی پوری قوم کی طرح اس واقعے پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے۔ اسی دوران یاسر کے موبائل پر یہ اپ ڈیٹ آئی کہ عائشہ نے ایف آئی آر درج کروادی ہے۔ عمومی طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات پر بدنامی کے خوف سے متاثرین خاموش ہوجاتے ہیں لیکن عائشہ نے بڑی بہادری کا کام کیا۔انہوں نے کہا کہ وہ عائشہ اکرم کی بہادری سے متاثر ہوئے اور فیصلہ کیا کہ اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور اسے انصاف دلائیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے کرائم رپورٹر کے ذریعے ایف آئی آر کی کاپی منگوائی جس میں متاثرہ لڑکی کا نمبر موجود تھا، ہم نے اس لڑکی سے رابطہ کیا۔ گفتگو کے پہلے جملے میں ہی وہ رونا شروع ہوگئی۔ اس پر یاسر شامی کو غصہ آگیا اور اس نے کہا کہ ہماری بھی ماں بہن کل کو گھر سے باہر نکلیں گی تو ان کے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہوسکتا ہے اس لیے ہمیں عائشہ کی ہر ممکن مدد کرنی چاہیے۔

اقرار الحسن کے مطابق اس واقعے میں ویڈیو ریکارڈ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا بلکہ متاثرہ لڑکی کی مدد کرنا مقصود تھا۔ انہوں نے قسم اٹھا کر کہا کہ انہوں نے اپنے پروگرام سرِ عام کیلئے یا ریٹنگ کیلئے عائشہ اکرم کی کوئی بھی ریکارڈنگ نہیں کی۔اقرار الحسن نے بتایا کہ جب عائشہ سے ملاقات ہوئی تو ریمبو نامی لڑکا بھی موجود تھا جس نے بتایا کہ وہ ٹیم سرِ عام کی شرٹس پہن کر بھی بہت سی ویڈیوز بناتا رہا ہے۔ اینکر پرسن نے وضاحت کی کہ اس وقت پورے ملک میں ٹیم سرِ عام کے رجسٹرڈ ممبرز کی تعداد 18 سے 20 لاکھ تک ہے ، یہ ایسے نوجوان ہیں جو اپنے طور پر اپنے علاقوں میں فلاحی کام کرتے ہیں، میری سب سے ملاقات نہیں ہوئی اور یہ ممکن بھی نہیں ہے کہ لاکھوں لوگوں سے ملا جاسکے۔انہوں نے بتایا کہ عائشہ کی ویڈیو یاسر شامی کے گھر پر یاسر کی فیملی کی موجودگی میں ریکارڈ کی گئی۔ پہلے تو ویڈیو ریکارڈ ہی نہیں کرنی تھی لیکن عائشہ نے خود رضامندی کا اظہار کیا۔ یہ اس طرح کی ویڈیو تھی جس میں متاثرہ لڑکی کا چہرہ چھپایا جانا چاہیے تھا لیکن عائشہ نے خود کہا کہ وہ چہرہ نہیں چھپانا چاہتی کیونکہ وہ پہلے ہی یوٹیوب اور ٹک ٹاک پر آتی رہتی ہے اس لیے کیمرے کے سامنے آنے میں اسے ہچکچاہٹ نہیں ہوئی۔اقرار الحسن کا کہنا تھا کہ ہم ایسی قوم ہیں جو ظلم اور زیادتی کے خلاف مکمل طور پر کھڑے ہونے کی بجائے مظلوم اور متاثرین میں نقص نکال کر انہیں ہی طعن و تشنیع کا نشانہ بنانا شروع کردیتے ہیں۔خیال رہے کہ یوم آزادی کے موقع پر عائشہ اکرم نامی  ٹک ٹاکر کو مینار پاکستان کے گریٹر اقبال پارک میں ہجوم کی جانب سے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس واقعے پر ڈیلی پاکستان کے اینکر پرسن یاسر شامی نے اے آر وائی نیوز کے اینکر اقرار الحسن کے ساتھ مل کر ویڈیو ریکارڈ کی اور متاثرہ لڑکی کا موقف دنیا کے سامنے پیش کیا۔ ڈیلی پاکستان کے چینل پر ویڈیو میں بھی یہ وضاحت موجود ہے کہ متاثرہ لڑکی کا چہرہ دکھانے کا فیصلہ اس کا اپنا تھا تاہم اس بنا پر یاسر شامی اور اقرار الحسن کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔سوشل میڈیا صارفین کے تمام الزامات کی تفصیل اور ان کا جواب اقرار الحسن کی اس ویڈیو میں موجود ہے ۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں