تحریر: ایاز امیر۔۔
ہماری ہمت اتنی بھی نہیں لیکن جو ہے وہ بھی اب جواب دے رہی ہے۔ ہم سے کچھ نہیں ہو پا رہا‘ کوئی چیز ہماری گرفت میں نہیں رہی۔ بجلی کے بل بے قابو ہیں‘ ان کے نام پر ہم پر کیا کیا ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔ مہنگائی نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ یہ نامراد ڈالر‘ یہ تو ہمارے لیے کسی بھوت کی مانند بن چکا ہے‘ ہاتھ میں ہی نہیں آ رہا۔ آسمانوں نے دیکھا کہ ہم نے آئی ایم ایف کے کتنے ترلے کئے‘ ناک رگڑ رگڑ کر کچھ مل تو گیا لیکن حالت سنبھل نہیں رہی۔ ہمارا یقین کیا ایمان تھا کہ یہ ملک کسی خاص مقصد کے لیے معرضِ وجود میں آیا ہے۔ مقصد تو اب تک سمجھ نہیں آیا لیکن تیرے بندوں کی جو حالت ہو چکی ہے کم از کم وہ مقصد تو نہیں ہو سکتا تھا۔
پھر بتا اے پروردگار‘ ہم کریں کیا؟ تنکوں کا سہارا لے لیا کرتے تھے‘ سایوں پر اُمیدیں باندھ لیتے تھے لیکن اب تو تنکے بھی ہاتھ نہیں آ رہے۔ جذبات سے مغلوب ہوکر ہم کہتے تھے کہ ہم نے یہ قلعہ تعمیر کیا ہے‘ نظریات کا قلعہ اور وغیرہ وغیرہ کا قلعہ۔ مانتے ہیں کہ قلعے کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی غیروں کی عطا کی ہوئی خیرات پر کام چلاتے تھے لیکن یہ اُمید کبھی نہ گئی کہ ایک دن رنگ لائے گی فاقہ مستی ہماری۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ خوابوں اور اُمیدوں کا خانہ بالکل خالی ہو گیا ہے۔ غیروں کا گلہ کیا کریں‘ جن کو اپنا سمجھتے تھے وہ بھی ہمیں بھکاری کے روپ میں دیکھنے لگے ہیں۔
ایک شکوہ البتہ آسمانوں سے بنتا ہے‘ کیسے کیسے میرِ کارواں ہمیں عطا ہوئے۔ ان کے نازل ہونے میں آسمانوں کی رضا تو شامل ہوگی لیکن اس بات کا انکار ممکن نہیں کہ بیشتر پرلے درجے کے نمونے ہی نکلے۔ حالات مختلف رہتے تو درمیانے درجے کے عہدوں سے اوپر انہیں کوئی مائی کا لعل نہ رکھتا۔ یہ قلعۂ نظریات تعمیر ہونے لگا تو یہ سارے انوکھے کردار ایسے اونچے مقامات پر چڑھنے لگے کہ ہم اس ماجرے کو دیکھتے ہی رہ گئے۔ اپنی اپنی باری پر ان ساروں نے قلعۂ نظریات کے ساتھ وہ کیا جو چنگیز خان نے خوارزم کی سلطنت کے ساتھ کیا۔ خوارزم کی تباہی کے بعد چنگیز خان اور اُس کی فوجیں دیگر فتوحات کی طرف چل نکلیں۔ ہماری بدنصیبی دیکھی جائے کہ ہمارے کردار جو شروع دن سے مسندِ حکمرانی پر بیٹھے‘ جس نااہلی کے وہ مظہر تھے وہ نا اہلی ہمارا مقدر بن گئی۔ عجیب عجیب سوالات کا پھر ذہنوں میں اٹھنا فطری ہے۔ سوچتے ہیں کہ نعرے تو ہمارے بڑے بلند تھے لیکن قلعۂ نظریات کو تعمیر کرتے کرتے یہاں تک ہم کیسے پہنچ گئے۔
اس عرضداشت میں کوئی مبالغہ نہیں۔ پہلے اس دھرتی پر صرف غریب اور لاچار دُہائیاں دیتے تھے‘ لیکن یہ جو ایک دو سال میں ہمارے ساتھ ہوا ہے‘ مڈل کلاسیے‘ جو سمجھتے تھے کہ اس ملک کے مسائل سے وہ مبرا ہیں‘ وہ بھی اب چیخ رہے ہیں۔ اس دھرتیٔ نظریات کی اب یہ حالت ہے کہ جہاں جائیں دو ہی موضوع ہیں‘ ایک بجلی کا بل‘ دوسرا عمومی مہنگائی۔ نوجوان یہاں سے بھاگنا چاہتے ہیں‘ کیا مزدور‘ کیا پڑھے لکھے۔ ایسے میں جیسے عرض کیا ہماری ہمتیں تو جواب دے گئیں‘ اب تُو ہی آخری سہارا ہے۔ رحم کر اپنے بندوں پر لیکن ایک التجا ہے‘ ہم معجزوں کے متمنی ہیں‘ ہمیں ہدایت نہ دے۔ ہم نے پہلے کب کسی کی سنی کہ اب سنیں گے۔ مصنوعی جہادوں کے دوران امریکی ڈالر آ جایا کرتے تھے۔ کسی ایسی ریل پیل کی پھر سے تمنا ہے۔ کہیں سے بھی آئے‘ کچھ تو مل جائے۔
آسمان یہ بھی دیکھیں کہ ہمارے افغان بھائی ہمارے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ ہم نے اُن کو پنا ہ دی‘ اپنا ملک اُن کے لیے کھولا۔ شروع میں جو پناہ گزین کہلاتے تھے‘ یہیں کے ہو گئے‘ اپنے گھر انہوں نے یہیں بنا لیے۔ اونچے اونچے نعروں کی صدا میں مدرسوں سے فارغ نوجوان یہاں سے افغانستان جہاد کرنے جاتے تھے۔ یہ سلسلہ چالیس سال تک جاری رہا اور اب دیکھئے کہ جب سے طالبان کے ہاتھ افغانستان کی حکمرانی آئی ہے‘ وہاں سے نوجوان اس دھرتی پر ‘جہاد‘ کرنے آرہے ہیں۔ کیا اس کو احسان کا بدلہ کہتے ہیں؟ جنرل ضیاالحق کے نام نہاد جہاد میں افغانوں کو ڈالر‘ ریال اور ہتھیار ہماری وساطت سے مہیا کیے جاتے تھے۔ ظاہر ہے اس ترسیلِ بے پناہ میں سے کچھ ہم رکھ لیتے تھے لیکن بیشتر تو وہاں جاتا تھا۔ امریکیوں کے آنے کے بعد دوسرا نام نہاد جہاد شروع ہوا تو بظاہر تو ہم امریکیوں کے ساتھ تھے لیکن درپردہ طالبان کے لیے جوکچھ کرسکتے تھے وہ ہم نے کیا۔ اور آج دیکھیں وہ لوگ ہمارا احسان کیسے چکا رہے ہیں۔
اشرف غنی وہاں کا کٹھ پتلی صدر تھا تو ہم سمجھ بیٹھے کہ ہم جو چاہیں وہاں کر سکتے ہیں۔ ہم نے باڑ بھی لگانا شروع کی اور بڑے فخر سے کہا گیا کہ ستر‘ اسی فیصد باڑ مکمل ہو چکی ہے۔ اشرف غنی کے بھاگتے ہی یہ کمبخت طالبان ہماری باڑ کے پیچھے پڑ گئے۔ اب جس قسم کے حملے وزیرستان وغیرہ میں ہو رہے ہیں‘ محسوس ہوتا ہے کہ باڑ نام کی کوئی چیز سرحد پر ہے ہی نہیں۔ ہوتی تو جو حملے ہم پر کر رہے ہیں ان کے لیے کچھ رکاوٹ تو بنتی لیکن حملوں کی شدت اور تعداد دیکھی جائے تو لگتا ہے کہ اُن کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں۔ اُس باڑ پر کتنی کھپت ہوئی‘ اُس کا ہمیں نہیں معلوم اور ایسی معلومات سے بے خبر ہی رہیں تو بہتر ہے۔
جس نہ ختم ہونے والے امتحان سے ہم گزررہے ہیں‘ اُس میں صرف ایک چیز اچھی ہوئی‘ دوقومی نظریے کی قدرومنزلت پھر سے ثابت ہو گئی ہے۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے ہمارے اکابرین سمجھاتے تھے کہ دیکھو ہم اور وہ مختلف ہیں‘ ہمارا دین ایمان اور‘ ہمارے رسم و رواج اور‘ ہمارا کھانا پینا اور۔ آج کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں رہی‘ وہ برہمنوں اور مہاجنوں کی اولادیں چاند پر پہنچ چکی ہیں اور ہم جن کی شمشیر و سناں اول تھی اور طاؤس و رباب پردوں کے پیچھے‘ ایک ایسی سیاسی اور معاشی دلدل میں پھنس چکے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ یہاں سے نکلیں گے کیسے۔ دو علیحدہ حیثیتوں کا وجود تو پھر سمجھ آ ہی گیا۔
سچ پوچھئے تو اُن کا چندریان جب چاند کی سطح پر اُتر رہا تھا میری آنکھیں نم ہو گئیں‘ کسی خوشی سے نہیں بلکہ اس احساس سے کہ ہمارے ساتھ ہی انگریزوں کے چنگل سے نکلے تھے اور دیکھیں وہ کہاں پہنچ چکے ہیں اور ہم کہاں ہیں۔ روز صبح اخبار کھولتا ہوں تو یہ احساسِ ندامت دل کو کھائے جاتا ہے۔ ہمارے ساتھ ہوا کیا؟ یا زیادہ درست ہوگا یہ کہنا کہ ہم نے اپنے ساتھ کِیا کیا؟ دھرتی تو اچھی بھلی ملی تھی‘ بنگالیوں کا ذکر رہنے دیجئے‘ اُنہیں ویسے بھی ہم کس خاطر میں لاتے تھے‘ لیکن اس طرف کی آبادی کم تھی اور زمین بڑی وسیع۔ دریاؤں کے پانی تھے اور انگریزوں کا دیا ہوا تنظیمی اور قانونی ڈھانچہ۔ 1947ء میں ایشیا برباد پڑا ہوا تھا اور ہم ایک نئے نویلے ملک کی شکل میں دنیا کے نقشے پر اُبھرے تھے۔ مسئلہ ہمارے سامنے تھا‘ نئے ملک کو بنانے اور سنوارنے کا‘ ہم نظریاتی بحثوں میں پڑ گئے‘ جہاں کام کرنے کی ضرورت ہوتی تھی نعرے بلند کر دیتے۔ قومی زندگی کے ہر اہم موڑ پر غلط راستہ چنا۔دنیا ہمارے اثاثے نہیں مانگ رہی‘صرف سمجھانے کی کوشش کر تی ہے‘ لیکن ہم نے ہر موقع پر من مانی کی۔
اب کیا رہ گیا ہے؟ ایٹمی اثاثے‘ بڑھتی ہوئی آبادی اور یہ سوال کہ ہم کہاں کہ رہ گئے ہیں۔(بشکریہ دنیانیوز)