خصوصی رپورٹ۔۔
ایسا لگتا ہے کہ بدنام زمانہ کمپنی ایگزیکٹ نے پانچ سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے بعد ایک مرتبہ پھر جعلی ڈگریوں کی فروخت کا کاروبار دوبارہ شروع کر دیا ہے۔ایف بی آئی کے ایک سابق ایجنٹ نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کو خط لکھ کر خبردار کیا ہے کہ ایگزیکٹ نے بھرپور انداز سے جعلی ڈگریاں اور ڈپلومے فروخت کرنے کیلئے دوبارہ اپنی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ریٹائرڈ ایف بی آئی ایجنٹ ایلین ایزیل (جو ڈپلومہ اسکینڈل کی ٹاسک فورس کے سربراہ تھے) نے خط میں لکھا ہے کہ ایگزیکٹ آج وہی کام کر رہی ہے جو 16؍ سال پہلے کر رہی تھی۔ ایک ڈگری کی قیمت 199؍ ڈالرز سے دو لاکھ ڈالرز تک رکھی گئی ہے۔
ان کا بنیادی مقصد ڈگری اور ٹرانسکرپٹ فروخت کرنا ہے، اور اطلاعات ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں (بلیک میل اور بھتہ خوری کے ذریعے) کم و بیش 56؍ فیصد تک کاروبار کیا جا رہا ہے، جس کے بعد امریکا میں 29؍ فیصد تک کام شروع کیا گیا ہے۔میرے خیال میں امریکا میں اب تک پاکستان میں قائم ایگزیکٹ کے کال سینٹرز کے ذریعے ایک لاکھ سے زائد ڈپلومے اور ٹرانسکرپٹ فروخت کیے جا چکے ہیں۔مقامی سطح پر ڈسٹرکٹ آف کولمبیا میں 83؍ سے زائد ، میری لینڈ ریاست میں دو ہزار 632؍ جبکہ ورجنیا میں 1723؍ ڈپلومے اور ٹرانسکرپٹ فروخت کیے گئے ہیں۔
طریقہ کار کے مطابق، اس کے ساتھ نوٹری کے تصدیق نامے، سفارت خانے کی مہریں اور امریکی ڈی او ایس ایپوسٹائل تصدیق نامے (جن میں زیادہ تر شاید جعلی ہی ہیں) شام ہیں۔پانچ صفحات پر مشتمل خط میں ایلین ایزل نے لکھا ہے کہ ایگزیکٹ بتاتا ہے کہ اس کے جعلی اسکولز امریکا میں قائم ہیں، امریکا کے کئی پتے اور فون نمبرز استعمال کیے جاتے ہیں اور ساتھ ہی امریکی صدارتی اسکالرشپ کا جھانسہ دے کر نئے طلبہ کو راغب کیا جا رہا ہے۔جعلی چیزوں کے ’’امریکی‘‘ ہونے کے اس دھوکے کو بڑھاوا دینے کیلئے کئی ویب سائٹس پر امریکی کیپیٹول ہل بلڈنگ کی تصویریں ہیں اور ساتھ ہی کئی ویب سائٹس پر امریکی جھنڈا بھی لگایا گیا ہے۔
ایلین ایزل نے خط کے ساتھ اپنے بلاگ پر بھی اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس وقت ایگزیٹ والے صرف نمائشی مقاصد کیلئے اپنی عمارت کے باہر اپنا نام تبدیل کر کے لگا رہے تھے، اس وقت عمارت کے اندر کمپنی کے ملازمین نے اپنا کام جاری رکھا اور جعلی ڈگریاں فروخت کرنے کا سلسلہ بند نہیں کیا۔بلڈنگ کے آئی ڈی کارڈز پر آجر کا نام تبدیل کیے جانے کے بعد سے ایگزیکٹ نے اپنے آن لائن تعلیمی بزنس کو فروغ دیا ہے تاکہ لاکھوں طلبہ کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے، کیونکہ یہ وہ طلبہ ہیں جو وبا کے اس دور میں اپنے تعلیمی اداروں کو نہیں جا پا رہے، اور اب یہ لوگ انٹرنیٹ پر اپنی تعلیم تلاش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر ماہ 5؍ ہزار طلبہ ان اداروں سے سوالات کرتے ہیں اور انرولمنٹ کی شرح 40؍ فیصد ہے۔ ماہانہ آمدنی تقریباً 20؍ لاکھ ڈالرز ہے۔ جب بھی کسی ایک اسکول کیلئے رجسٹریشن کے نتیجے میں آمدنی 10؍ لاکھ ڈالرز تک پہنچتی ہے تو 10؍ ہزار ڈالرز کا بونس دیا جاتا ہے۔
کراچی اور اسلام آباد کے کال سینٹرز میں ایگزیکٹ کے ملازمین کی تعداد 900؍ ہے جو سب جعلی کلاسوں کی اسکیموں پر کام کر رہے ہیں۔
یہ لوگ اپنا شکار اسپائیڈر ویب ٹائپ سائٹس کے ذریعے پروفیشن کے لحاظ سے پھنساتے ہیں اور مثال کے طور پر اس کام کیلئے یہ ویب سائٹس سرگرم ہیں: www.gulfonlineeducation.com اور www.onlineengineeringguide.com یا پھر www.onlinedegreeprofs.com۔
جب اس نمائندے نے سابق ایف بی آئی ایجنٹ سے ان کے الزام کے حوالے سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اس معاملے پر پاکستانی سفارت خانے کو پانچ وائس میلز بھیجیں اور سفیر مسٹر خان کے سیکریٹری سے دو مرتبہ بات ہوئی لیکن انہوں نے ایک مرتبہ بھی مجھ سے رابطہ نہیں کیا، خط کی صورت میں بھی نہیں۔ چونکہ میں اب ریٹائر ہو چکا ہوں اسلئے یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنے لوگوں نے ایف بی آئی، یو ایس پی او، یو ایس ایس ایس، ایف ٹی سی یا دیگر اداروں کو اس معاملے پر اپنی شکایات ارسال کی ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ کچھ نے شکایت ضرور کی ہوگی لیکن میرے پاس تفصیلات نہیں ہیں۔ مجھے ایف بی آئی کے سوا کسی اور کی تحقیقات کا علم نہیں ہے اور میں اپنے ذرائع کو نقصان پہنچائے بغیر آپ کو کسی بھی طرح کی تفصیلات نہیں دے سکتا۔گزشتہ کئی ہفتوں کے دوران میں نے ایگزیکٹ اور کریسٹ جعلی اسکول کے سیلز پرسن سے رابطے کیے ہیں اور ان کی نئی دستاویزات کے نمونے بھی دیکھے ہیں، اس لئے میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کھیل دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پاکستانی سفیر مسٹر خان کو 9؍ فروری 2020ء کو سیکریٹری لنڈا کے ذریعے خط بھیجا تھا۔دوسری جانب پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان نے اس نمائندے کو بتایا کہ انہیں ایسے کسی بھی معاملے کا علم نہیں، مجھ سے اپنی اس عہدے پر تعینات کے وقت سے لے کر اب تک ایگزیکٹ کے متعلق کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا، مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے ان سے موصول ہونے والی کوئی چیز دیکھی ہے، میرے ساتھیوں کو بھی اس کا علم نہیں ہے۔
ایف بی آئی کے سابق ایجنٹ کے خط کے جواب میں ایگزیکٹ کے وکیل عامر منسوب نے اس دعوے کو دوٹوک الفاظ میں مسترد کر دیا اور کہا کہ ایف بی آئی کے کسی عہدے دار کے حوالے سے ایسا ہی ایک خط پاکستان میں ایف آئی اے کی ٹیم کو شواہد کی صورت میں پیش کیا گیا تھا جسے بعد میں عدالت نے بھی قابل قبول شواہد ماننے سے انکار کر دیا۔انہوں نے کہا کہ ہماری کمپنی کے نمائندے نے ایف بی آئی کے عہدیدار کا خط امریکی عدالت میں چیلنج کیا جہاں کچھ سال قبل یہ ثابت ہوا کہ ایگزیکٹ امریکا میں کہیں بھی کوئی بھی غیر قانونی کام نہیں کر رہی۔انہوں نے اس نمائندے کو بتایا کہ کوئی بھی غلط یا غیر قانونی اقدام ثابت نہیں ہوا جس کا تعلق جعلی ڈگری یا ڈپلومہ کے ساتھ جڑا ہو۔ لہٰذا، غیر قانونی کارروائی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ خط کمپنی کو بدنام کرنے کی ایک اور کوشش ہو سکتا ہے۔
ایگزیکٹ کے ایک اور وکیل امداد علی نے جیو نیوز کو بتایا کہ میں ایگزیکٹ کا وکیل نہیں رہا۔ میں اب ایگزیکٹ کا کیس نہیں لڑتا، مجھے ایسی کسی سرگرمی کا علم نہیں کہ کمپنی نے جعلی ڈگریوں کے آپریشنز شروع کیے ہیں۔شروع سے میں ایگزیکٹ کا جعلی ڈگریوں اور ساتھ ہی منی لانڈرنگ کے کیسز سے نمٹ رہا تھا۔ اے سی اے چیف فنانشل افسر عدیل ارشد سے بھی اس نمائندے نے رابطہ کیا تاہم یہ خبر فائل کرنے تک ان کا جواب نہیں آیا۔ایف آئی اے کے سینئر عہدیداروں، جو اس کیس پر کام کر رہے تھے، اُنہوں نے جیو نیوز کو بتایا کہ ایگزیکٹ کیس پر تحقیقات خوابیدہ حالت میں ہے کیونکہ امریکی حکام نے منی لانڈرنگ اور حوالہ ہنڈی کے متعلق پاکستان کی جانب سے کی گئی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ایف آئی اے کے تفتیش کار نے جیو نیوز کو بتایا کہ کیس ٹرائل کے حتمی مراحل میں ہے، کئی ججز تبدیل ہو چکے ہیں، کچھ شواہد کا امریکا سے آنے کا انتظار ہے، اب تک کئی اگر مگر اور لیکن جیسے سوالات کا سامنا ہے۔ اس نمائندے نے ایف بی آئی، ہوم لینڈ سیکورٹی ڈپارٹمنٹ، ایف آئی اے اور وزارت قانون سے ان کا موقف معلوم کرنے کیلئے رابطہ کیا لیکن خبر فائل کیے جانے تک انہوں نے کوئی موقف نہیں دیا۔
یاد رہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے عدالت میں پیش کیے جانے والے 59؍ صفحات پر مشتمل چالان میں کہا گیا تھا کہ ایگزیکٹ انتظامیہ نے طلبہ، ان کے آجروں اور سرکاری ملازمین کے ساتھ دھوکا کیا اور انہیں جعلی، جھوٹی اور گمراہ کن یونیورسٹیوں / کالجز / اسکولز / ایکری ڈیٹیشن وغیرہ کا جھانسہ دے کر ان سے ان کے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے بھاری فیسیں وصول کیں اور انہیں بیرون ممالک کمپنی کے بینک اکائونٹس بشمول میسرز ایگزیکٹ ایف زیڈ ایل ایل سی دبئی یو اے ای کے اکائونٹ میں منتقل کیا۔
اس معاملے میں غیر ملکی حکومتیں ایف آئی اے کے ساتھ امریکی سفارتخانہ اسلام آبد کے لیگل اتاشی کے توسط سے تعاون کر رہی ہیں اور تحقیقات کا سلسلہ ابھی جاری ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچنے میں ابھی وقت لگے گا۔چالان میں بتایا گیا ہے کہ غیر ملکی طلبہ / متاثرین بھی پاکستان میں موجود اپنے سفارت خانوں اور قونصل خانوں کے توسط سے تحقیقات میں رابطہ کر رہے ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔