آواز ٹی وی کے دفتر پر مسلح افراد کی چڑھائی۔۔ ورکرز اور صحافیوں کو یرغمال بنایا، ہر طرف خاموشی۔۔تفصیلات کے مطابق دو روز قبل دس بارہ سادہ لباس مسلح افراد کلفٹن میں سندھی ٹی وی چینل آواز ٹی وی کے دفتر میں گھس گئے، صحافتی اسٹاف اور ورکرز کو اسلحے کے زور پر ایک کمرے میں بند کیا۔ یہ واقعہ صبح چار پانچ بجے کا ہے اس لیئے دفتر میں اسٹاف بہت کم تھا۔ ایک گھنٹے تک ملازمین سے پوچھ گچھ کرتے رہے، مالکان کے بارے میں معلومات لیتے رہے۔ اس کے بعد واپس چلے گئے۔ چونکہ آواز ٹی وی ایک با اثر صوبائی وزیر کا بیٹا چلا رہا ہے اس لیئے یہ لوگ نجی لوگ تو ہو نہیں سکتے ۔ اب نہ جانے یہ میسیج سینیئر صوبائی وزیر کے لیئے تھا یا چینل کے سابقہ مالکان کے لیئے تھا۔ آج سینٹرل پولیس آفیس میں وزیر داخلہ ضیاءالحسن لنجار سے اس بارے میں سوال پوچھا اور میں نے ان سے پوچھا کہ یہ واقعہ آپ کے علم میں ہے ،یہ بتا سکتے ہیں کیا ہوا تھا، ضياء الحسن لنجار نے اپنے مختصر جواب میں واقعے کی تصدیق کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ غلط فہمی تھی۔ اب خدا جانے کس کو کس سے غلط فہمی تھی لیکن وزیر داخلہ کے جواب سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ سندھ حکومت اس واقعے سے با خبر ہے ، یہ ہی وجہ ہے کہ چینل کے مالکان اور انتظامیہ نے خاموشی اختیار کردی۔ ورنہ میڈیا ہائوس پر اس طرح کے حملے کے بارے میں انتظامیہ کی جانب سے چار سطروں کا پریس رلیز تو کم از جاری ہوتا۔ لیکن نہ صرف چپ سادھ لی گئی بلکہ ملازمین کو بھی منع کیا گیا کہ اس واقعے کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتانا ہے۔ لوگ صحافتی تنظیموں سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ وہ خاموش کیوں ہیں۔ صحافتی تنظیمیں بھی کیا کریں جب چینل کی انتظامیہ ہی واقعے کی تردید کر رہی ہو۔ ( عاجز جمالی )
نوٹ: عمران جونیئرڈاٹ کام نے جب اس حوالے سے آواز ٹی وی انتظامیہ سے رابطہ کیا اور ان کا موقف جاننا چاہا تو ہمیں بتایا گیا کہ یہ سب غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔۔ چھاپہ مارنے والوں کو برابر والے بنگلے میں جانا تھا لیکن وہ غلطی سے آواز ٹی وی کے دفتر میں آگئے۔۔اصل صورتحال سامنے آنے پر چھاپے کے لئے آنے والے تمام اہلکار فوری واپس چلے گئے تھے۔۔