عامرلیاقت کاوڈیوکلپ دیکھ کر چیف جسٹس کا اظہاربرہمی
کیا ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیئے، چیف جسٹس
سمیع ابراہیم نے سپریم کورٹ سے معافی مانگ لی۔۔
(خصوصی رپورٹ)
سپریم کورٹ نے بول نیوز کے اینکر اور تحریک انصاف کے منتخب رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کو اشتعال انگیز اور منافرت پر مبنی پروگرام کرنے پر توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کر کے 14 روز میں جواب دینے کی ہدایت کی ہے۔چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بنچ نے جیو نیوز کی عامر لیاقت کے خلاف توہین عدالت کی دائر درخواست کی سماعت کی۔ عدالت میں عامر لیاقت کے پروگرام کے مختلف کلپس چلائے گئے۔ ویڈیو کلپ دیکھنے کے بعد چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایسا شخص جسے یہ معلوم نہیں ہے کہ پبلک فورم پر کیا بولنا ہے، کیا ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے؟ چیف جسٹس کے کہنے پر ڈاکٹر عامر لیاقت کے ایک پروگرام کا کلپ بھی عدالت میں چلوایاگیا جس میں انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کے مالک کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی تھی۔عامر لیاقت نے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے سخت غصے میں کہا کہ عدالت میں ڈرامہ نہیں چلے گا، اسٹیج پر نہیں کھڑے۔چیف جسٹس نے عامر لیاقت سے استفسار کیا کہ انہوں نے بھارت کا باپ اور بھارت کا بیٹا کسے کہا؟ جس پر عامر لیاقت نے کہا کہ اجیت دوول اورمودی کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے ۔ چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا آپ جھوٹ بول رہے ہیں،جھوٹ بولنے پرآپ کو توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کیا جاتاہے،عامر لیاقت 14روز میں شوکاز نوٹس کا جواب دیں۔سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کردی۔
اسلام آباد کے سینئر کورٹ رپورٹر وحیداے مراداپنی ویب سائیٹ میں اس کیس کی تفصیل بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۔۔ درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ عامر لیاقت کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے کیونکہ عدالت عظمی کے جانب سے اس کو پروگرام جاری رکھنے کی مشروط اجازت دی گئی تھی ، شرط یہ تھی کہ وہ تضحیک آمیز اور منافرت پر مبنی گفتگو نہیں کریں گے ۔ دوران سماعت درخواست گزاروں کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیئے ۔ وکیل نے بتایا کہ عام لیاقت منافرت پھیلانے اور تضحیک کے عادی ہیں، ان کے خلاف پہلے بھی درخواستیں آئیں اور پیمرا نے نوٹس لئے، ان پر پابندی بھی لگی مگر بار بار وہی کرتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں فوجداری کارروائی نہیں ہو رہی ۔ وکیل نے بتایا کہ یہ نہیں کہہ رہا کہ فوجداری نوعیت کی کارروائی کر کے جرم میں سزا دی جائے ۔ اس کی دو تشریحات ہیں ۔ شاہد اورکزئی کیس میں 2007 میں توہین عدالت کا ایک اصول طے کر دیا گیا ہے، اس کی مختلف جہات ہیں ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جہتیں تو ہوں گی مگر ہم فری اسپیج کے حق کے گارنٹر بھی ہیں اس کو بھی دیکھنا ہے ۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر یہ فری سپیج میں آتا ہے تو پھر میرا کوئی کیس نہیں ہوگا ۔ عامر لیاقت کے وکیل شہاب سرکی نے کہا کہ ہم درخواست گزاروں کی فراہم کردہ ویڈیو نہیں دیکھ پائے جن سے ان کو شکایت ہے اس کے بعد ہی جواب دے سکیں گے، انہوں نے صرف ویڈیو کا تحریری متن فراہم کیا ہے، جب تک مکمل پروگرام نہیں دیکھتے سیاق و سباق سمجھ سمجھ نہیں آئے گا، اگر یہ ہمیں تاریخ بتا دیتے تو ہم خود پورے پروگرام کی ویڈیو ساتھ لے آتے ۔چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ درخواست گزار کی فراہم کردہ ویڈیو کلپ پروجیکٹر پر عدالت میں چلائی جائے ۔ پہلی ویڈیو چلائی گئی تو عامر لیاقت بول رہے تھے “نیلے پیلے چینل کے میرشکیل کو، فادر آف بھارت کو، سن آف بھارت کو، نیلے پیلے کے تمام اینکرز کو، مودی کے تمام اینکرز کو بھی، جلنے والے، حسد کرنے والے کو بھی یہ گانا ڈیڈیکیٹ کر رہا ہوں پیار سے، اور گانا پیار سے ہی ڈیڈیکیٹ کیا جاتا ہے”۔۔۔چیف جسٹس نے ویڈیو رکوا کر عامر لیاقت کو بلایا، وہ اپنی نشست سے اٹھ کر روسٹرم کی جانب آئے تو چیف جسٹس ثاقب نثار سخت لہجے میں بولے، یہاں ڈرامہ نہیں چلے گا عدالت ہے، اسٹیج نہیں ، جواب دیں کہ اس ویڈیو میں آپ کا مخاطب کون ہے؟ ۔ عامر لیاقت جھٹ سے بولے اجیت کمار ڈوول اور مودی کیلئے (عدالت میں بیٹھے افراد عامر لیاقت کے جواب پر مسکرا کر رہ گئے) ۔ اس پر چیف جسٹس سخت لہجے میں بولے،عدالت کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں، اس جھوٹ پر ابھی نوٹس جاری کرتے ہیں ۔
عامر لیاقت کے وکیل شہاب سرکی نے کہا کہ دراصل عامر لیاقت بھارتی چینل زی ٹی وی کے اینکرز کے بارے میں کہہ رہا ہے، زی ٹی وی نے ان کے بارے میں پروگرام کیا تھا ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کیا ان کی (بطور رکن اسمبلی) کامیابی کا نوٹی فیکیشن جاری ہو گیا ہے؟ ۔ کیا ایسے لوگوں کو پارلیمنٹ میں بیٹھنا چاہئے جن کو اپنی زبان پر اختیار نہیں، ٹی وی پر عام لوگوں کو کیا بتا رہے ہیں ۔چیف جسٹس نے عامر لیاقت کے وکیل سے کہا کہ آپ وہ زی ٹی وی کے پروگرام بھی لائیں جو ان کے خلاف کئے گئے، اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، ان کو عدالت نے اجازت دی تھی، ہم نے انتباہی حکم بھی دیا تھا، یہ ذومعنی پروگرام کرتے ہیں ۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ ہم نے پچھلے سال ان کو سی ڈیز اور متن فراہم کر دیا تھا، ان کا جواب بھی عدالت میں جمع ہے ۔ چیف جسٹس بدستور برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج مودی یاد آ گیا، کوئی اور یاد آ گیا ۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کسی کے ساتھ جتنی بھی مخالفت ہو اس طرح کسی کے خلاف منافرت نہیں پھیلانی چاہیئے، غدار قرار دینے کی بات نہیں ہونا چاہیئے، اس طرح تو ملک میں اشتعال کی فضا پیدا ہوگی ۔ویب سائٹ کے مطابق چیف جسٹس نے پوچھا کس چینل پر ہوتے ہیں یہ؟ وکیل نے جواب دیا کہ بول پر ۔ چیف جسٹس نے عدالت میں موجود سمیع ابراہیم (بول کے ڈائریکٹر نیوز) کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوگوں کو یہ دکھاتے ہیں، نذیر لغاری صاحب (بول کے اینکر) کہاں ہیں؟۔ سمیع ابراہیم عدالتی روسٹرم پر آئے اور کہا کہ یہ سب دیکھنے کے بعد بہت شرمندگی ہے، میں اس پر معافی مانگتا ہوں، اب میں بول کا کانٹینٹ ہیڈ ہوں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کسی پڑھے لکھے آدمی کو اس طرح کی گفتگو زیب دیتی ہے؟ ۔ سمیع ابراہیم نے کہا کہ میں عدالت کو یقین دلاتا ہوں کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا ۔(خصوصی رپورٹ)۔۔