تحریر: شکیل بازغ۔۔
اینکر ذہین ہوتا ہے،تبھی تو یہ اداکار ذہن ساز ہوتا ہے۔ اب عوام اینکر کو صحافت سکھائیں گے؟
ہمیں بد تہذیبی پسند نہیں، کسی کی تذلیل، ہراسگی، تشدد، بدتمیزی، تضحیک، ہمیں بالکل پسند نہیں،لیکن اگر یہ سب کوئی دوسرا کرے تو، ہاں ہم سے ہو جائے تو ہمارے پاس اسکا بہترین جواز موجود ہے، یہ ہیں ہماری اخلاقیات ، یعنی ہمارے پاس تو ہماری بد اخلاقی تک کا جواز موجود ہے، لیکن کسی دوسرے سے سر زد ہو تو ہم وجہ جانے بغیر دوسرے پر چڑھ دوڑتے ہیں، اور اسے ایسے ایسے بھاشن دیتے ہیں، جو پہلے کبھی نہ سنے گئے نہ بولے پڑھے گئے، کیا ہمارے دو چہرے نہیں؟
بھائیوبد اخلاقی گناہ، جرم ہم سے ہو یا کسی سے برابر قابل مذمت ہے، انصاف کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم خود سے سرزد ہو جانے والی بد اخلاقی و دیگر گناہ و جرائم پر بھی اتنا ہی خود کو رگیدیں جتنا ہم دوسروں کو ہدف بنا کر کرتے ہیں،
ہمارا مسئلہ یہ ہے، کہ ہم نے اپنے تئیں بُت تراش رکھے ہیں، اور انہیں پارسا کہتے ہیں، ان سے کسی غیر متوقع عادت کو برداشت کرنا ہمارے بس سے باہر ہے، میڈیا کو ہم نے حق سچ کا علمبردار مان رکھا، سچ کی بہروپ میں جھوٹ کی کتنی آمیزش ہے ہمیں یہ سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں، اور میڈیا پر دکھائے جانے والے ہر ہر لمحے کا کانٹینٹ اور پریذینٹر حتٰی کہ ہر ہر فقرہ حرفِ آخر مان لیتے ہیں، جبکہ میرا تجربہ یہ ہے کہ میڈیا منافقت کا گڑھ، جھوٹ کا ترجمان اور سچ کو مسخ کرنے والا بدترین صیہونی آلہ کار ہے،ایسے میں اگر کوئی اینکر سخت یا بلند تضحیک آمیز لہجے میں کھری بات کرے تو وہ اپنے پروگرام سے کچھ کشید کرکے آپکے ذہن میں ڈالنا چاہتا ہے، کبھی مدھم لہجے میں، کبھی سخت لہجے میں، کبھی کسی پر برس کر تو کبھی کسی کی تعریف کرکے،،،،،لیکن ہم،،،،،،ہمارے جذبات بھڑک اٹھتے ہیں، ایک وقت میں جس اینکر کو ہم برا بھلا کہہ کر اسکی شخصیت کشی کر رہے ہوتے ہیں، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی اور وقت اسی کے کسی پروگرام کا کلپ بطور دلیل شیئر کر رہے ہوتے ہیں، اگر اینکر مدھم اور دلفریب لہجے میں معاشرے کے کانوں میں گند گھول کر ذہنوں کو غلیظ کرتا رہے،ہمیں برا نہیں لگتا، ہم سطحیت کے قائل ہیں، ظاہر پر تکیہ کرتے ہیں، گہرائی میں جا کر سمجھنے غور کرنے کی ہم زحمت نہیں کرتے،بات کی تہہ، لہجے میں چھپی اداکاری، لفظوں کی ذومعنویت نہ جانتے ہیں اور نہ ہمیں جاننے کا کوئی شوق ہے۔ جو ہماری ڈومین نہیں، جس بارے ہم ککھ نہیں جانتے اس پر بھی اپنی علمی گرفت ظاہر کرکے کسی منجھے ہوئے کھلاڑی کو چاروں شانے چِت کرنے میں جُت جاتے ہیں، میری پسند نا پسند سے میڈیا نہیں چلے گا، اور نہ کسی دوسرے شخص کی پسند و ناپسند پر کوئی اینکر اپنا انداز یا کانٹینٹ بدلے گا۔ اختلاف کریں، کرتے پھریں، جنہوں نے طے کر لیا کہ میڈیا کے گندے جوہڑ میں ڈوب کر جانا ہے، آپ اس سے طہارت کی امید لگاتے ہیں، کمال ہے، مے خانے میں زاہد کو علاقہ نہیں، مے خانے کو مسجد اگر آپ مانتے ہیں، تو آپ اپنا علاج کرائیے۔ میں کہہ یہ رہا ہوں کہ میڈیا کو ذہن ساز مانیں نہ کہ صوفی واعظ، اور اس میں اینکرز کسی نہ کسی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہوتے ہیں، اور کارپوریٹ میڈیا کا ایجنڈا عالمی صیہونی تہذیب کا نفاذ ہے، اسکا ایجنڈا کسی غیرِ صیہونی ملک کے علاقائی تہذیب ثقافت، عقائد اور روایات کے رد میں عوام کی ذہن سازی کرنا ہے، ذہن ساز خود کو بہترین اینکر منوانے کیلئے جو بھی طریقہ کار اپناتا ہے، اس پر حرف نہیں اٹھایا جا سکتا، یعنی صیہونیت پھیلانے میں پارسا کا طرز تخاطب اپنانے کا بھاشن دینا سمجھ سے بالا تر ہے، کڑوے پر ہم شکر ڈال کر نگلنا چاہتے ہیں، جس نے شکر نہیں ڈالی اسے ہم تھو تھو کرتے ہیں، او بھئی بات کی گہرائی میں جایا کرو، مے خانے اور مسجد میں فرق کو سمجھو، حق اور باطل میں تمیز کرو۔ اپنی سوچ کو قران سے جوڑ لو، تاکہ روشنی دکھائی دے، اور اندھیرا بھانپ سکو، یہ گرے ایریا میں رہنے والے لوگ جہلا ہوتے ہیں، جو نہ سفید کو جانتے ہیں نہ کالے کو۔ قصہ مختصر ہمیں زہر پسند ہے بس اس میں چینی ملی ہو۔(شکیل بازغ)۔۔
(شکیل بازغ کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)