تحریر: ایاز امیر۔۔
یہاں جو پہلے کہانیاں سنائی جاتی تھیں اُن میں سے ایک یہ تھی کہ ہندوستان ہمارا دشمن ہے اور وہ ہمارے وجود کو نہیں مانتا۔ہندوستان نے کیا کرنا تھا‘ ہم نے جو اس دیس کے ساتھ کیا ہے ہندوستان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ وہاں کی خفیہ ایجنسیاں ہمارے خلاف کوئی منصوبہ تیار کرتیں وہ اتنا مہلک نہیں ہوسکتا تھا جتنا کہ ہم نے اپنے خلاف کرلیا۔ جو یہاں کے حکمران بنے وہ یہیں کی پیداوار ہوسکتے تھے‘ اُنہیں باہر سے امپورٹ نہیں کیاجاسکتا تھا۔ ہمارے حکمران چننے کا اختیار ہندوستان کو ہوتا تو ایک چھوٹے موٹے کرپٹ حاکم کا وہ سوچتے۔ لیکن یہ جو ہم نے مگرمچھ اپنے اوپر بٹھائے اور اُنہیں برداشت کیا اور اب تک برداشت کررہے ہیں وہ ہمارا ہی کارنامہ ہوسکتا تھا۔
تاریخ کو کیا دہرانا ‘ اُس سے کیا حاصل ہوگا ؟ سوچنا تو اب کا چاہئے ‘ ٹھیک سے حالات چل رہے تھے لیکن ٹھیک حالات ہمیں کہاں راس آتے ہیں۔ جیسے بھی ہوا حکمرانی میں تبدیلی لائی گئی اور پھر گرفت میں کچھ نہ رہا۔ ہرچیز ہاتھ سے نکلتی گئی اور اب تو ہم وہاں پہنچ چکے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کہ بدلہ ہم سے کون لے رہا ہے۔ اتنا بدلہ ہم سے ہندوستان تو نہیں لے سکتا ‘ یہ جو ہرمحاذ پر زبوں حالی ہے یہ تو لگتا ہے کہ پتا نہیں آسمان ہم سے ناراض ہو گئے ہیں یا کوئی ا ور نادیدنی قوتیں ہم سے حساب چکا رہی ہیں۔ سچ پوچھئے تو سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ مانا کہ حالات ہمارے کنٹرول میں نہیں ہیں لیکن جو روزانہ کی بنیاد پر ہم نیچے کی طرف جا رہے ہیں یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔کہاوت ہے کہ دَھن دولت ہاتھ کی میل ہے۔ میل کچھ دیر تو ہاتھ پر رہتی ہے ‘ یہ جو ہمارا روپیہ ہے اس کا تو کوئی ہلکا سا وجود بھی نہیں رہا۔ ہاتھ میں آتا ہے چلا جاتا ہے‘ میل کا روپ اختیار کرنا تو دور کی بات ہے۔ایسے میں بنے گا کیا ہمارا؟جو باہر جاسکتے ہیں وہ جا رہے ہیں لیکن کتنوں کی کھپت باہر کے ملکوں میں ہوسکتی ہے؟ بائیس‘ چوبیس کروڑ ہماری آبادی ہے ‘ سارے کے سارے تو یہ لوگ کہیں باہر نہیں جاسکتے۔
پہلے نعروں سے کام چل جاتا تھا لیکن اب تو نعرے بھی بھولے جا رہے ہیں۔ہندوستان دشمنی بھول چکے ‘ کشمیر کے نعرے کیا لگائیں ‘ اب تو لوگ اپنی حالت کو رو رہے ہیں اور اُنہیں کیا یاد رہنا ہے۔البتہ داد دینی پڑے گی نون لیگ والوں کو۔ سولہ ماہ کی حکمرانی کے مزے اُنہوں نے خوب لیے‘اپنے ذاتی معاملات سلجھائے ‘ بھاری بھاری مقدمات ختم کرائے اور قوم کو چونا لگا کے اپنے اصلی مسکن لندن پہنچ گئے۔خوب ہنس رہے ہوں گے ہم پہ کہ کیا بیوقوف قوم ملی ہے جسے صرف دو ہی کام آتے ہیں‘ تالیاں بجانا اور نعرے لگانا۔اُس گانے کے بول غلط تھے ‘ ”میاں دے نعرے وجن گے‘‘۔ نعرے تو ہمارے وج گئے اور اگر صحیح سوچیں تو نعرے کیا قوم کا بینڈ بج چکا ہے۔سو چتا ہوں کہ رقص کی محفلوں کا حال آج کل کے حالات میں کیا ہوتا ہوگا۔ وہ پرانا گانا تو ہم سب نے سنا ہے ‘ ”مینوں نوٹ وکھا میرا موڈ بنے‘‘۔جو آج کل کے نوٹوں کی حالت رہ گئی ہے اب تو کوئی تھدیاں بھی پھینکے تو کون سا موڈ بننا ہے۔حالت یہ نہ ہو جائے کہ اہلِ ثقافت ڈالروں اور ریالوں کا اصرار کرنے لگیں اور صرف اُنہی محفلوں میں جائیں جہاں پیشترشرط طے کرلی جائے کہ صرف فارن کرنسی کی ویلیں چلیں گی۔
ویسے سوچا جائے تو جو عوام کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہی ہو رہا ہے۔ یہ تو اب تقریباً ظاہر ہو چکا ہے کہ بیشتر عوام کی ہمدردیاں اُس جماعت ہی کی طرف ہیں جس کا نام لینا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اگر بیشتر عوام نے اُسی طرف پرچیاں ڈالنی ہیں تواکابرینِ ملت کی سوچ صحیح ہی لگتی ہے کہ ایسے عوام کس ہمدردی کی مستحق ہوسکتے ہیں؟یہ بھی سب کو پتا ہے کہ اس عوام نے درست نہیں ہونا۔ الیکشن تین ماہ بعد ہوتے ہیں یا تین سال بعد ووٹ وہیں جانے ہیں‘ توپھر ہمارے بڑوں کی سوچ درست ہی لگتی ہے۔پرابلم صرف اتنا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں ہو رہا۔ یہ انتہا کے نکمے پن کا نتیجہ ہے۔ان سے پوچھا تو جائے کہ پچھلے سال جو آپ کو انگڑائی لینے کا شوق پیدا ہوا یہ کیونکرا ہواتھا؟رہنے دیتے‘ اپنے جذبات پر قابو پاتے ۔ لیکن تب کے جو عقلِ کل تھے حالات کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے۔ اپنی انا کی خاطر سب کچھ داؤ پر لگا دیا۔ حساب لینا تھا اُس وقت کے حکمرانوں سے لیکن حساب لیا گیا ہے پوری قوم سے۔اور ایسا حساب کہ چھہتر سالہ طوفانی تاریخ میں اُس کی مثال نہیں ملتی۔1971ء میں کیا ہوا تھا؟ کچھ لوگ ہندوستانی قیدمیں چلے گئے ‘ قوم کی تھوڑی بہت رسوائی ہوئی۔ رسوائی بھی وقتی طور پہ ہوتی ہے ‘ لوگ بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ 1971ء کی رسوائی ہم نے اپنے دلوں کو نہ لگائی۔ جو ہوا ہمارے ساتھ ہم اُسے جلد بھول گئے لیکن یہ جو اَب ہمارے ساتھ ہو رہا ہے ‘ یہ تو روز کی چھترول ہے۔ بجلی کے بلوں کو روئیں یا پٹرول کو روئیں؟کیا کسی شاعر نے کہا تھا کہ عزت تو آنی جانی چیز ہے۔ رسوائی بھی آنی جانی چیز ہے لیکن اس مہنگائی کی چوٹ تو کلیجے پرروزانہ پڑتی ہے‘ اس کا کیا علاج ہے؟
بات یہ بھی ہے کہ ہم پھرکچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔اذیت روزانہ کی لیکن ز بانیں نہیں ہلا سکتے۔یہ آج کل کے حالات ہیں۔ایوب خان کا دور اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا تو عوام باہر نکل آئے ‘ خوب تحریک چلی اور آخرکار خان صاحب کو جانا پڑا۔یہ اور بات ہے کہ ایک خان صاحب گئے تو دوسرے خان صاحب یعنی یحییٰ خان آ گئے‘ لیکن کچھ تو ہوا کچھ تو ہم کہنے جوگے رہ گئے کہ دیکھیں عوام کی طاقت کیا چیز ہوتی ہے۔یہ بھی اور بات ہے کہ جب یہ دوسرے خان صاحب مشرقی پاکستان پر چڑھ دوڑے تھے تو اُنہوں نے ہماری رائے نہیں پوچھی تھی ۔ رائے لیتے بھی کیا ‘ مغربی پاکستان کے لوگ خوابِ خرگوش میں ڈوبے ہوئے تھے‘ بیشتر کو ادراک ہی نہ تھا کہ وہاں ہو کیا رہا ہے۔بہرحال ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی ایک تحریک چلی اور آخرکار’ میرے عزیز ہم وطنو ‘ کے دلفریب الفاظ قوم کو سننے کو ملے۔لیکن آج کل کے حالات دیکھئے ‘ بالکل مختلف ہیں۔ زبانیں بند ہیں‘ احتیاط کا دامن سب نے لپیٹا ہوا ہے۔ کہنے کو بہت کچھ ہے ‘ سینوں میں جذبات تڑپ رہے ہیں‘ لیکن لبوں پر کچھ نہیں آرہا۔کیوں نہیں آ رہا؟ رہنے دیجئے ‘ عرض کیا نا!احتیاط کا دامن لازم ہے۔
لیکن ایک اور عجیب بات بھی ہو رہی ہے ‘ خیالات تبدیل نہیں ہو رہے۔جہاں کی نیت لوگوں نے باندھی ہوئی ہے اُسی پر قائم ہیں۔ ہمارے کرم فرماؤں کیلئے یہی امر پریشانی کا باعث ہے۔ایک تو وہ سمجھ رہے تھے کہ معیشت تو کوئی پرابلم ہی نہیں‘ ہم آئیں گے اور ڈالروں اور ریالوں کی ریل پیل ہو جائے گی۔ دوم‘ عوام کے خیالات حالات کے جبر کے تحت تبدیل ہو جائیں گے‘ اور کل کے دیوتا آج کے دیوتا نہ رہیں گے۔ معیشت کا جو ہوا ہے اور پھر جو معیشت نے ہم سے کیا ہے اور کئے جا رہی ہے وہ کہانی تو ہمارے سامنے ہے۔اور جہاں تک عوامی امنگوں کا تعلق ہے وہ بھی سب کو پتا ہے۔لیکن عوام کی ایسی کی تیسی ‘ کہاں بھاگ کے جائیں گے؟(بشکریہ دنیانیوز)۔۔