awam har chay mah baad qalabai khaate hein

عوام ہر چھ ماہ بعد قلابازی کھاتے ہیں، رؤف کلاسرا۔۔

سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ۔۔عوام کی رائے کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک سیریس لینا چاہیے۔ چھ ماہ بعد انہوں نے قلابازی کھانی ہوتی ہے‘ تب وہ اُلٹا آپ کو سنا دیں گے کہ آپ نے ہاتھ ہولا رکھا ہوا ہے۔ آج کل سب کو خان کا بخار چڑھا ہوا ہے۔ میری بڑی خواہش ہے کہ خان دوبارہ وزیراعظم بنے اور پھر دیکھتے ہیں کہ یہ قوم کتنے ماہ بعد مجھ سے پوچھتی ہے کہ جناب پھر کیا خبر ہے‘ خان کب جارہا ہے؟ آپ نے ہاتھ ہولا رکھا ہوا ہے‘ لفافہ تو نہیں پکڑ لیا؟ دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ۔۔ انہیں لگتا ہے کہ جو سیاستدان انہیں پسند ہے ہمیں بھی وہی پسند ہونا چاہیے۔ اگر چھ ماہ بعد کوئی سیاستدان انہیں برا لگنا شروع ہوگیا ہے تو صحافیوں کو بھی وہ برا لگنا چاہیے‘ ورنہ صحافی بکے ہوئے ہیں۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ۔۔ہر نیا دن پاکستانی سیاست میں ایک نئی کشمکش لاتا ہے۔ ہر روز نیا ہنگامہ‘ نئی امیدیں اور شام کو وہی پرانی مایوسی۔اب تو ایسے سوال سننے کی عادت سی ہو گئی ہے کہ ہمارا کیا بنے گا‘ ملک کا کیا بنے گا‘ خان کب باہر آ رہا ہے؟ کبھی میں ان سوالات کو بڑا سنجیدہ لیتا تھا اور سنجیدگی سے اگلے بندے کو اپنا نقطۂ نظر سمجھانے کی کوشش کرتا تھا۔ پھر کچھ برس گزرے اور یہی سوال ہر حکومت بارے پوچھا جانے لگا تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ تو عوام کا مزاج ہے‘ جو ہر حکمران سے تنگ ہوتے ہیں۔ جو شخص وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھا ہو اس سے تنگ ہوتے ہیں اور جو جیل میں بیٹھا ہو یاجلاوطنی بھگت رہا ہو‘ اس سے بہتری کی امیدیں باندھ لیتے ہیں

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں