تحریر: شکیل انجم۔۔
آٹھ اکتوبر کو لیک کی جانے والی آڈیو نے عمران خان کے سیاسی نظریہ اور سوچ کو برہنہ کر دیا۔اس لیک نے عمران خان کے اس چہرے سے بھی نقاب اٹھا دیا جسے پہن کر وہ عوام خصوصأ نوجوان نسل کو اپنا دلدادہ بناتے تھے اور لوگ ان سے پوجنے کی حد تک محبت کرتے تھے۔اور اس چہرے کے ذریعے عمران خان نے عوام کی بالخصوص نوجوان نسل کی محبت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقتدار کی ہوس کو پورا کیا اور وزیراعظم کا منصب حاصل کیا۔ لیکن اب وہ سب جو عمران کا وہ چہرہ دیکھ کر ان کے گرویدہ ہوئے تھے جو سچائی کا راستہ دکھاتا تھا اور وہ ان کے لئے کٹنے مرنے کے لئے تیار رہتے تھے اس آڈیو لیک کے بعد سکتہ کی حالت میں ہیں جس میں ان کے قائد نے صرف اقتدار حاصل کرنے کے لئے ارکان قومی اسمبلی خریدنے کے غلط اقدام کو یہ کہہ کر کے درست قرار دیتے ہوئے پانچ ارکان خریدنے کا اعتراف کیا اور موقف اختیار کیا کہ “کوئی نہ سوچے کہ ٹھیک ہے یا غلط، کوئی بھی حربہ ہو کسی بھی طریقے سے جیت جائیں۔۔وقت اہم ہے۔۔میں ایسی کئی چالیں چل رہا ہوں جو پبلک نہیں کی جا سکتیں۔”۔عمران خان نے خود اپنے نظرئے کے مطابق اپنے ضمیر کا سودا کیا کیونکہ وہ یہ نظریہ ان الفاظ میں پیش کر چکے ہیں کہ “یہ بھی شرک ہے جب آپ اپنے ضمیر کو پیسے کی لالچ میں بیچتے ہیں۔ یہ جو بھیڑ بکریوں کی طرح بکتے ہیں یہ بھی شرک ہے۔” خان صاحب اب شرک کی تشریح اپنے نظریے کی بجائے کسی صاحب علم سے شرک کے معنی اور اس مروجہ سزا کے بارے دریافت کریں یا پھر یہ کہہ دیں کہ وہ ہر گناہ اور سزا سے مبرا ہیں۔اس کے لئے کیا ان کا کہنا درست ہو گا کہ لوگ سچ کے ساتھ کھڑے ہوں ،جھوٹ کے ساتھ نہیں۔
عمران خان کے حوالے سے یکے بعد دیگرے سامنے آنے والی آڈیو لیکس نے ان کی “اصولی سیاست” کی دھجیاں بکھیر دیں۔ 28 ستمبر کو لیک ہونے والی آڈیو میں سائفر کی خودساختہ سازش کی قلعی کھل گئی۔ اس لیک میں خان صاحب نے سائفر کے حوالے سے اپنے جھوٹ کا اعتراف کیا تھا۔ یہ سازش بے نقاب ہوئی لیکن خان صاحب نے شرمندگی کا اظہارکرنے کی بجائے جعلسازی کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے کےلئے مختلف طریقوں سے سازشوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور 30 ستمبر کو منظر عام پر آنے والی آڈیو میں سائفر کو جعلسازی کے ذریعے امریکہ کی جانب سے دھمکی پر مبنی ٹرانسکرپ بنا کر عوام کے سامنے لانے کی سازش کا عقدہ بھی کھل گیا۔
خان صاحب کی سازشوں کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ انہوں نے ہر قیمت پر اقتدار حاصل کرنے کے فیصلے کے تحت اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کی ٹھان لی ہے۔خفیہ ایجنسیوں کا خیال ہے کہ اس بار عمران خان نے خیبر پختون خوا کی حکومتی طاقت استعمال کرتے ہوئے کوئی غیر آئینی قدم اٹھانے کی ٹھان رکھی ہے۔جس کے نتیجے میں کسی بڑے گھمسان کا اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے۔
ادھر آڈیو لیکس پر بات کرتے ہوئے پی۔ٹی۔آئی کے لیڈر فواد چوہدری نے موقف اختیار کیا ہے کہ ایوان وزیر اعظم گھنٹہ گھر کے چوک کامنظر پیش کر رہا ہے جہاں کی جانے والی کوئی بات خفیہ نہیں رہ سکتی۔ یہاں کوئی رازداری نہیں۔ فواد چوہدری نے لیکس میں موجودہ حکومت کے ملوث ہونے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ قومی سیکیورٹی کے لئے خطرناک ہو سکتی۔۔کیا فواد چوہدری کو اس بات کا علم نہیں کہ یہ آڈیوز عمران خان کے دور میں ریقارڈ ہوئی تھیں۔۔کسی اور فریق کو ذمہ دار ٹھہرانا قوم کو جاہل اور بیوقوف قرار دینے کے مترادف ہو گا۔
آڈیو لیک میں میر جعفر اور میر صادق کا بیانیہ عوام کو فیڈ کرنے کی ہدائت کرنے والے خان صاحب دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ سے اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کے لئے تعلقات استوار کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔پی۔ٹی۔آئی کے لیڈر عسکری قیادت کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہونے کے دعوے کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ وہ نیوٹرل نہیں بلکہ پی۔ٹی۔آئی کو ان کی حمائت حاصل ہے جس کا علم آرمی چیف کے دورۀ امریکہ سے واپسی پر ہو گا۔لیکن آرمی چیف کے پاکستان ملٹری اکیڈمی میں کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ پریڈ سے خطاب سے سب کچھ نکھر کر سامنے آ گیا تاہم پی۔ٹی۔آئی کی قیادت کو مایوسی ہوئی جس کا علاج کسی کے پاس نہیں۔۔ اب عوام کو جاہل سمجھ کر بیوقوف بنانے کے لئے سب کچھ پہلے کی طرح چلتا رہے گا۔۔جبر پر ایمان، آمرانہ رویہ، جھوٹ اور انتقام کی سیاست، تکبرانہ چلن، اقتدار کی ہوس، مذہب کا غلط استعمال، حصول اقتدار کے لئے جعلسازی اور ہارس ٹریڈنگ پر یقین، قول و فعل میں تضاد، مخالفین کا تمسخر اڑانے کے لئے بازاری زبان کا استعمال، ضد، گفتگو میں ہرزہ سرائی، رعونت، عدم برداشت اور جعلسازی۔۔ ان حالات میں جب سیاسی نشیب و فراز میں سب کچھ آشکار ہو چکا ہے ۔(بشکریہ جنگ)