alu timatar lelo sahafi lelo

اطہر ناسک مرحوم کا جوتا۔۔

تحریر: محمد نواز طاہر۔۔

سوشل میڈیا پر کسی نامعلوم کا ایک ریکارڈد وائس میسیج سنا جس میں موصوف سڑک کنارے کھڑی ایک سوالی لڑکی کے حوالے سے بتارہے تھے کہ اس لڑکی نے سوالی کیا جس نے مجھے پریشان کردیا ۔۔۔۔۔ کہ” انکل اگر آپ ہمیں پیسے نہیں دینگے تو کیا ہم اپنی عزت بیچنا شروع کردیں “؟

 یہ میسیج سن کر مجھے یاد آگیا کہ میں نے ایک مرتبہ ایک خبر پر کچھ سوچے سمجھے بغیر سخت تبصرہ کردیا ، ابھی میں نے آخری لفظ ادا نہیں کیا تھا کہ ہمارے ہیڈ کاتب کی ہوائی چپل سیدھی میرے منہ پر لگی جو اس وقت کے نیوز ایڈیٹر اطہر ناسک ( مرحوم ) نے ماری تھی اور سخت ناراضگی کا اظہار بھی کیا تھا ساتھ ہی استادانہ لیکچر بھی ، مجھے پہلے غصہ آیا جو میں پی چکا تھا اورپھرغصے کی جگہ ندامت نے گھیر لیا اور میں نے معذرت کرلی۔ میں نے جس خبر پر بے لاگ تبصرہ کیا تھا وہ ایک قحبہ خانے پر چھاپے کی اوروہاں سے گرفتارہونے والی ایک لڑکی کا بیان تھا کہ پہلے وہ گھروں میں کام کرنے کی کوشش کرچکی، حق حلال کی کمانے میں یوں لگا جیسے وہ پورے جسم کی نمائش کرکے اور ساراوقت جنسی ہراسانی کا سامنا کرکے اور اپنے اندر مر مر کے ہی ممکن ہوسکتا ، یہ میرے بس میں نہیں تھا تو میں گھر بیٹھ گئی پھر فاقوں نے گھیر لیا تو سڑک کنارے ہا تھ پھیلایا وہاں سے مجھے تین افراد اٹھا کر لئے اور پھر اس کے بعد اس کے اندر حلال اور حرام کی تمیز خود سے ہی جنگ کرنے لگی ،اگلے روز مجھے محلے کی آنٹی بڑے پیار سے’ سمجھا بھجا ‘( ورغلاکر) ڈیفنس لے گئی ( ان دنوں ڈیفنس بھی نیا نیا تھا اور آبادی میں آہستہ آہستہ اضافہ ہورہا تھا) ۔ اس میں کچھ دیگر ملزمان کے بیانات اس بیان سے قطعی مختلف تھے ،میں نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا”مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ یہاں اگلے وقتوں میں کم و بیش ہر گھر کی کفیل ایک عورت ہوگی اور اس کا ذریعہ روزگار باوقار نہیں ہوگا ‘ شائد میں کوئی اگلا جملہ یا لفظ بھی ادا کرتا لیکن ا س سے پہلے ہی اطہرناسک صاحب مجھے جوتا مار کر میری زبان بند کرچکے تھے ۔ انہوں نے میری بات کی جزوی طورپر تائید کی اور ساتھ ہی اللہ سے ڈرنے اور رحم کی دعا کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے الفاظ کی ادائیگی میں احتیاط برتنے کی نصیحت کی ۔ ان کی نصیحت میں نے ابتدائی طور پر ایک کان سے سنی دوسرے سے ہوا کردی البتہ سنہ انیس سو ستانوے میں جب مجھے ریڈیو پاکستان کیلئے اسکرپٹ لکھنے اور مائیک پر بات کرنے کا موقع ملا تو سب سے پہلے اطہر ناسک صاحب ( مرحوم ) کی نصیحت یاد آگئی جو میں نے پلے باندھ لی ۔

 پرانے صحافی،خاص طور پر نیوز روم میں اہم ذمہ داریاں ادا کرنے والے ریڈیو سننے کے عادی ہوا کرتے تھے ، ایک روز اطہر ناسک صاحب نے میری آواز ریڈیو پرسننے کے بعد مجھے فون کرکے محتاط گفتگو پر حوصلہ افزائی کی اور شاباش دی تو میں نے انہیں اپنے منہ پر پڑنے والا جوتایاد کروایا، انہوں نے ہنس کر ٹال دیا اور بولے اگر ایک جوتے نے یہ کام کیا تو پوری چپل کیا رنگ لاتی ؟ قہقہے کے تبادلے اور ان کی دعاﺅں کے ساتھ مواصلاتی گفتگو ختم ہوگئی ۔ اس احتیاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ براڈ کاسٹنگ کے چھبیس ستائیس سال میں اللہ کریم نے بلنڈر سے محفوظ رکھا ۔ جب ریکارڈڈ وائس میسیج سنا ( جو کہا جارہا کہ کسی جج صاحب کا ہے ) تو مجھے تین سے زائد عشرے گذرنے پر وہ خبر بھی یاد آگئی ، میرا سخت تبصرہ بھی اور اپنے منہ پر پڑنے والے چپل کے جوتے کی شدت ایک بار پھر محسوس ہوئی ، ان صاحب کے اس وائس میسیج میں چھپا درد، اس سوالی لڑکی کا سوال، اس میں چھپے کرب اور حالات کی نشاندہی نے تڑپا دیا ، یوں لگتاہے کہ یہ پورے معاشرے کے منہ پر طمانچہ نہیں مارا بلکہ اطہر ناسک ( مرحوم ) نے چپل کا جو ایک جوتا مارا تھا وہ پورے جوڑا ہزاروں لاکھوں کے ساتھ ضرب کھا کر پورے معاشرے کے ہر فردکے منہ پر لگاہے مگر صرف ان کے جو محسوس کرتے ہیں بھلے وہ اس کا مداوا کرنے کی استطاعت ، حوصلہ اورجرات نہ رکھتے ہوں مگر کڑہتے ضرور ہیں ۔۔۔مجھے تو یوں لگا کہ سڑک پر کھڑی وہ لڑکی میری ہی بیٹی تھی اور گاڑی میں ان جج صاحب کی جگہ بدبخت خود میں ہی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔مگر میرے آنسو بڑی دور جا کر بہت دیر کے بعدنکلے۔۔(محمد نواز طاہر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں