تحریر:طحہٰ عبیدی
دسمبر دو ہزار انیس کی بات ہے ، جب اطہر متین کے قاتلوں نے ناظم آباد میں میں ایک شخص سے موٹر سائیکل چھینی ، پولیس موقع پر پہنچ گئی ، ملزمان اور پولیس میں فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار شہید ہوگیا ،مقابلے میں دو ملزمان مارے گئے اور ایک فرار ہوگیا ، یہ فرار ہونے والا ملزم اطہر متین قتل کیس کا مرکزی کردار اشرف تھا ، دونوں ملزمان کی ہلاکت سے یہ گروپ ختم ہوگیا تواشرف نے انور کے ساتھ ایک نیا گروپ تشکیل دیا جو کراچی سے موٹر سائیکلیں چھینتا اور بلوچستان میں فروخت کردیتا ، یہ صبح چار بجے کی بات ہے جب اشرف اور انور حب سے کراچی کیلئے نکلے اور تقریباً ساڑھے سات بجے نارتھ ناظم آباد میں موٹر سائیکل چھیننے کی کوشش میں اطہر متین کو قتل کرکے فرار ہوگئے ۔
اطہر متین کے قتل کے بعد صحافی برداری میدان میں آگئی ، ٹی وی چینلز پر خبریں نشر ہونے لگیں اور یہ قتل اخبارات کی زینت بھی بن گیا ، سندھ حکومت اور پولیس اس قتل سے پریشان ہوگئی ، جس کے بعد پولیس نے قاتلوں کی گرفتاری کیلئے تین ٹیمیں تشکیل دیں ، پہلی ٹیم قاتلوں کے پاس سے ملنے والی موٹر سائیکل کے مالک کی تلاش میں بلوچستان حب پہنچ گئی اور وہاں سے جہانگیر نامی شخص کو حراست میں لیا ،جہانگیر سے تفتیش میں بھی ملزمان کی شناخت مشکل ہوچکی تھی ، اب ملزمان کی شناخت انتہائی مشکل مرحلہ تھا،اس قتل میں اہم کردار ادا کرنے والے ایس ایس پی طارق نواز نے دو ہزار انیس کو ہلاک ہونے والے ملزمان کی جوائنٹ انٹیروگیشن رپورٹ پڑھنا شروع کی اسی وقت “اے وی ایل سی”کے ڈویژنل انویسٹی گیشن افسر شبیر نے ملزمان کے زیر استعمال موبائل فونز کی جانچ پڑتال شروع کردی ، ڈی آئی او شبیر نے اعلیٰ پولیس افسران کو آگاہ کیا ایک نمبر اشرف کی اہلیہ کے زیر استعمال ہے ، ملزمان جب بھی کراچی میں واردات کرنے کے بعد موبائل فون بند کرتے ہیں تو ایک نمبر آن ہوجاتا ہے ، یہ وہ موبائل فون ہے جو دو ہزار انیس میں پولیس اہلکار کے قتل کے بعد بند کردیا گیا تھا ، پولیس نے نمبر کو ٹریس کیا اور پھر کڑیاں ملاتے چلے گئے ، جس کے بعد ڈی آئی او شبیر کی کوششوں سے ملزمان کی شناخت ہوگئی ، اب مرحلہ ملزمان کی کمین گاہ اور گرفتاری کا شروع ہوچکا تھا ، جس میں ویسٹ زون کے آئی ٹی انچارج فیصل نے اہم کردار ادا کیا اور انتہائی ماہرانہ انداز سے ملزم کی اہلیہ کا نمبر ٹریس کیا اور پولیس ماہر آئی ٹی فیصل کی مدد سے اُس موبائل فون تک پہنچ گئی جو اطہر متین کو قتل کرنے کے بعد فوری طور پر بند کیا گیا تھا ، جس کے بعد پولیس ملزمان کو گرفتار کرنے پنجگور تمپ پہنچ گئی ، کراچی پولیس کے ایک سینئر افسر نے اپنے دوست جس کی پوسٹنگ پنجگور میں تھی اُس کو اطہر متین قتل کیس سے آگاہ کیا اور ملزمان کی تلاش میں دوسرا چھاپا مارا تو ایک ملزم اشرف کو دبوچ لیا گیا اور انور موقع سے فرار ہوگیا ۔
انور اطہر متین کو قتل کرنے والا ملزم تھا جس کی اس کیس میں گرفتاری انتہائی اہم تھی ، انور کے فرار ہونے پر پولیس کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا ، سندھ پولیس کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایا کہ اشرف کی گرفتاری کے بعد انور کی گرفتاری انتہائی اہم مرحلہ تھا کیوں کہ ملزم نے اپنا فون بند کردیا تھا اور وہ کسی سے بھی رابطے میں نہیں تھا جس کے بعد پولیس نے “دیسی طریقہ”اختیار کیا اور سندھ پولیس کے انفارمر اور مخبروں کو انور کی تصویر شیئر کردی گئی ، مخبروں نے انور کی تلاش شروع کی تو ایس ایس پی قمبر شہداد کوٹ بشیر بروہی کو اطلاع ملی ، ملزم انور اُن کے علاقے میں روپوش ہے ، رات تین بجے آپریشن کی تیاری کی گئی تو کراچی پولیس کے ایک افسر نے بشیر بروہی کو آپریشن سے روک دیا اور گزارش کی ملزم کی دو جگہ موجودگی کی اطلاع ہے اگر جلد بازی کی گئی تو آپریشن ناکام بھی ہوسکتا ہے ، بشیر بروہی بھی سمجھدار پولیس افسر ہیں جنہوں ںے فوری طور پر آپریشن روک دیا اور مخبر سے مزید تصدیق شروع کردی ، اگلے روز مخبر نے ایک نئے مقام کی اطلاع دی اور بشیر بروہی پولیس پارٹی کے ہمراہ موقع پر پہنچ گیا جہاں مقابلے میں اطہر متین قتل کیس کا مرکزی کردار انور ہلاک ہوگیا ۔
اطہر متین قتل کیس میں اُس وقت کے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن ، ڈی آئی جی ویسٹ ناصر آفتاب ، ایس ایس پی سینٹرل معروف عثمان ، ایس ایس پی اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ عارف عزیز اور ایس ایس پی اے وی ایل سی طارق نواز نے انتہائی اہم کردار ادا کیا لیکن اطہر متین کیس میں کچھ “گمنام کردار” ایسے ہیں جنہیں ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ، اس کیس میں ملزمان کی شناخت میں ڈی آئی او اے وی ایل سی شبیر اور موبائل فون کی کڑیاں ملانے میں ویسٹ زون کے آئی ٹی ماہر فیصل نے اہم کردار ادا کیا ، مخبروں کے بہترین نیٹ ورک کا فائدہ اٹھانے والے بشیر بروہی اور ان کی ٹیم کا کردار بھی کسی سے کم نہیں ۔ سندھ پولیس کے اعلیٰ افسران کو شبیر ، فیصل اور بشیر بروہی کی ٹیم کیلئے ایک تقریب منعقد کرنی چاہیے ، انعام نہیں ایسے افسران کیلئے تالیاں بجانی چاہئیں اور ان تالیوں سے سینٹرل پولیس آفس کو گونجنا چاہئے ۔(طحہ عبیدی)۔۔