تحریر: عامر خاکوانی
عطاالحق قاسمی صاحب کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ عجیب لگا۔ ہمارا اصولی موقف ہے کہ عدالتی فیصلے تسلیم کرنے چاہئیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ اس لئے بھی کہ وہ آخری ہوتا ہے، لیکن ان فیصلوں سے اختلاف کا حق بہرحال رہتا ہے اور عدالتی فیصلوں پر نقد کی روایت دنیا بھر کے قانونی حلقوں میں موجود ہے۔
میری سمجھ سے باہر ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے عطاالحق قاسمی کے خلاف کیس کو اس قدر پرسنل کیوں لیا، پہلے عدالتی کارروائی کے دوران باقاعدہ ان کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا رہا، طنز ، تضحیک آمیز کمنٹس وغیرہ، پھر اس فیصلے میں ان کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور اس عہدے کے دوران لی گئی تمام تنخواہیں اور مراعات واپس کرنے کا حکم سنایا گیا ہے۔ ایسا کس طرح ممکن ہے، اگر وہ دو سال اس عہدے پر رہے تو ظاہر ہے جو تنخواہ ملتی رہی، وہ اس دوران خرچ ہوجاتی ہوگی، اب ان دو برسوں کی تنخواہیں، وہ بھی عہدہ چھورنے کے دو برس بعد اچانک کہاں سے دینا ممکن ہے؟ یہ تو کسی شخص کو دیوالیہ کرنے کا فیصلہ ہے۔ پھر یہ سمجھ نہیں آئی کہ اگر تقرر کرتے ہوئے کسی باریک قانونی نکتے یا ضابطے کی کارروائی کو پورا نہ کیا گیا تو اس میں عطاالحق قاسمی کا کیا قصور؟ انہوں نے اپنی تقرری کیا خود کی تھی؟ ایسا کہاں ہوتا ہے اور کس طرح اسے جائز اورمنصفانہ قرار دیا جا سکتا ہے؟
یہ سفارش بھی عقل وفہم سے بالاتر ہے کہ قاسمی صاحب کو دوبارہ کسی ایسے عہدے پر فائز نہ کیا جائے؟ کیوں؟ میں تو ویسے یہ بھی ماننے کو تیار نہیں کہ عطاالحق قاسمی پی ٹی وی کا چیئرمین بننے کے اہل نہیں ہیں۔ وہ ملک کےنامور کالم نگار، چوٹی کے مزاح نگار، مقبول ترین ٹی وی ڈرامہ نگارہیں، خاصا عرصہ ٹی وی کے ساتھ علمی تعلق رہا، پی ٹی وی کی تاریخ کے چند مقبول ترین ڈراموں میں ان کا ڈرامہ خواجہ اینڈ سنز شامل ہے۔ قاسمی ٹی وی ڈرامہ کی بہت اچھی سینس رکھنے والے، انٹرٹینمنٹ اور نیوز کی دنیا کو سمجھنے والے آدمی ہیں، دو ممالک میں سفیر بھی رہ چکے ہیں، پی ٹی وی ورلڈ اور گلوبل نیوز کو بھی وہ دوسروں سے کچھ بہتر ہی سمجھتے ہوں گے۔ قاسمی صاحب پی ٹی وی کے کم از کم پچھلے پانچ سات چیئرمینز سے بہتر ہیں، ان سے پہلے محمد مالک کے پاس یہ عہدہ تھا، قاسمی صاحب کے ٹی وی کے ساتھ ایکسپوژر کا محمد مالک سے کیا موازنہ ہوسکتا ہے، مالک پر تو کسی نے اعتراض نہیں کیا، قاسمی صاحب کو کیا اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ وہ میاں نواز شریف کے قریبی ساتھی ہیں؟
یہ واضح رہے کہ خاکسار کو عطاالحق قاسمی کے سیاسی نظریات سے سخت اختلاف ہے، میرا ان کے ساتھ البتہ احترام کا تعلق ہے، مگر پچھلے پانچ برسوں سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی، فون پر بات تک نہیں کر پایا کہ اندازہ تھا کہ میرے کالموں اور ن لیگ پر سخت تنقید انہیں ناپسند ہوگی۔ میری ذاتی رائے میں انہیں پی ٹی وی کا سربراہ نہیں بننا چاہیے تھا کہ صحافی کو ایسے عہدوں سے دور رہنا چاہیے، چیئرمین بن گئے تو اپنا پروگرام شروع نہیں کرنا چاہیے تھا، اس وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ بعد میں یہ ان کےلئے مشکل کا باعث بنے گا، تاہم اس کے باوجود کوئی یہ کہے کہ وہ پی ٹی وی کے اس منصب کے قابل نہیں تھے تو بہرحال یہ غلط اور نہ ماننے والی بات ہے۔ اس اختلاف کے باوجود دیانت کا تقاضا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے اس حوالے سے اپنی اختلافی سوچ بیان کی جائے۔ ویسے تو پرویز رشید، فواد حسن فواد سے دو برسوں کے پروگراموں کی کاسٹ وصول کرنے کا فیصلہ کی بھی سمجھ نہیں آئی۔ ایسا کبھی پہلے نہیں سنا۔ قانونی ماہرین بتا سکتے ہیں کہ اس قسم کے فیصلوں کی کیا نظائر موجود ہیں اور کسی تکنیکی نکتے کو نظرانداز کرنےکی اتنی بڑی سزا دی جاتی ہے یا نہیں؟(عامرخاکوانی)
(اس تحریر کے مندرجات سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔۔