تحریر: نادر بلوچ۔۔
اگر عاصمہ شیرازی سمیت دیگر کی کردار کشی ہی مالکان کی دلی خواہش ہے تو کم از کم اس کے لیے ان کے پائے کا ہی بندہ ڈھونڈ لیں جو یہ کام کرسکے، یہ کل کے کن ٹٹے اور بونے قسم کے لوگوں کو میدان میں اتار کر وہ مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے، جو آپ کرنا چاہ رہے ہیں۔ عاصمہ شیرازی جنہوں نے ایک لمبے عرصے تک فیلڈ رپورٹنگ کی اور دو دہائیوں سے دشت صحافت کی خاک چھاننے کے بعد ایک مقام پر پہنچی ہیں آج انہیں مخصوص بیانیے کی حمایت نہ کرنے پر غدار کہا جارہا ہے۔ان پر ایک بڑا الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ وہ فریڈم نیٹ ورک کی جس ویب سائٹ پر میڈیا پر پابندیوں سے متعلق لکھتی ہیں وہ ویب سائٹ انڈیا سے چلائی جارہی ہے۔ دوسرا الزام سرکاری حج والا ہے۔ اس تحریر میں دونوں الزمات کا جائزہ لیتے ہیں اور کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تازہ غداری کا الزام نیوز پریزینٹر سے اپنے کیرئیر کی ابتدا کرنے والے مخدوم شہاب الدین کے ذریعہ سے لگوایا گیا ، جس کے کریڈٹ پراتنا ہی ہے کہ وہ مین اسٹریم میڈیا میں فقط لکھی لکھائی خبریں پڑھتے رہے، بعد میں وہ یہ فیلڈ ہی چھوڑ گئے۔ خبر بنانا، آنے والی معلومات کا کاونٹر چیک کرنا، دستیاب معلومات کی چھان بین کرنا اور اسے صحافی اصولوں پر پرکھنا جیسے بنیادی کام کے قریب بھی نہیں بھٹکے اور نہ ہی انہوں نے یہ کام سیکھنے کی زحمت کی۔ یوٹیوب چینل پر ایک سال سے زیادہ عرصے تک کوشش کی لیکن پرموٹ نہ ہوسکے، بعد میں منڈی بہاوالدین کے ایک گروپ سےمنسلک ہوگئے۔۔ اور پھر اب کیا ہیں وہ سب کے علم ہے۔
خیر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں،، بی بی سی پر اس موضوع پر عماد خالق کا ایک تفصیلی آرٹیکل موجود ہے جسے انیس بیس تبدیلی کے ساتھ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ الزام اور اس کی حقیقت کو سمجھنے میں آسانی رہے۔
مخدوم شہاب الدین نے اپنی ویڈیو میں ایک خاص بیانیے کی حمایت نہ کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے نام پر انڈیا کے نیٹ ورکس چلائے جا رہے ہیں۔شہاب نے آزادی صحافت کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ایک غیر سرکاری تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی ویب سائٹ کے ڈی این ایس کو انڈیا میں موجود سرور سے منسلک ہونے کا دعویٰ کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کو نشانہ بناتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ فریڈم نیٹ ورک کی جس ویب سائٹ پر وہ پاکستان کے میڈیا پر پابندیوں کے متعلق لکھتی ہیں یا اس سے منسلک ہیں وہ ویب سائٹ انڈیا سے چلائی جا رہی ہے۔ حالانکہ خود شہاب الدین ویب سائٹ کے ڈی این ایس انڈیا میں موجود ایک سرور سے منسلک ہونے کا دعویٰ بھی سامنے آیا ہے۔
بی بی سی نے اس ضمن میں آئی ٹی ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کسی بھی ویب سائٹ کا ڈی این ایس ہوتا کیا ہے، اس کی کسی ویب سائٹ کے لیے اہمیت کیا ہے اور کیا اس کا کس دوسرے ملک میں موجود سرور سے منسلک ہونا اس کی طرف جھکاؤ کی ترجمانی کرتا ہے۔
ڈومین نیم سسٹم (ڈی این ایس) کیا ہوتا ہے؟
پاکستان کی سافٹ ویر انڈسٹری کی نمائندہ تنظیم پاشا کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن اور آٹی ٹی ماہر بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ آسان الفاظ میں یہ کسی عام ویب سائٹ کے آسان ایڈریس کی میپنگ سروس ہے یعنی یہ ایڈریس ڈیجیٹل دنیا میں ویب سائٹ کو اس کے ڈیٹا سرور کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں یہ فرنٹ اینڈ سرور نہیں ہوتا اور یہ عام صارف کو نظر نہیں آتا جس کا مطلب کا ہے کہ ایک عام صارف کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اس کی ویب سائٹ کا ڈیٹا سرور کہاں ہے اور اس کو منسلک کرنے والا ڈیجیٹل ایڈریس یعنی ڈی این ایس کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب کلاؤڈ ٹیکنالوجی میں تو ایک ڈیٹا کمپنیز کے سرور دنیا کے مخلتف ممالک میں ہوتے ہیں تاکہ صارف جہاں سے بھی اپنی مطلوبہ ویب سائٹ کھولے تو اس کے سامنے وہ فوری طور پر لوڈ ہو سکے۔اس کو آٹو ڈیجٹیل رؤٹنگ کہا جاتا ہے اور ایک ڈی این ایس کسی بھی کم لوڈ والے ڈیٹا سرور سے منسلک ہو کر مطلوبہ ویب سائٹ کو کھول دیتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عام الفاظ میں یہ کسی بھی ویب سائٹ کے لیے ایک پی او باکس نمبر کا کردار ادا کرتا ہے۔
ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم بائٹس فار آل کے شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کا نظام جتنا سادہ ہے اتنا ہی پیچیدہ ہے۔
دنیا میں انٹرنیٹ کے نظام کو قائم رکھنے کے لیے مختلف بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں کام کرتی ہیں۔
انٹرنیٹ کی دنیا میں عالمی سطح پر ویب سائٹ کے ڈی این ایس کو رجسٹر کرنے کے حوالے سے ایک ادارے انٹرنیٹ کنسورشیم آف نیمز اینڈ نمبرز ( آئی کین) کام کرتا ہے۔ یہ ادارہ عالمی سطح پر کام کرتا ہے اور پاکستان بھی اس کا رکن ہے۔ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی ویب سائٹ کے ٹیکنیکل ضوابط یہ ادارہ طے اور لاگو کرتا ہے۔ ان کے تحت مخلتف ویب سائٹ ہوسٹنگ سروس فراہم کرنے والی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈی این ایس اس ڈیٹا سرور سے منسلک کرنا کا ایڈریس ہوتا ہے جہاں آپ کی ویب سائٹ کا ڈیٹا رکھا جاتا ہے۔
اگر مذکورہ بالا معلومات کا عملی مشاہدے کیا جائے تو پاکستان کے بیشتر میڈیا اداروں کی ویب سائٹس کے ڈی این ایس بھی امریکا میں موجود ایک ڈیٹا سرور سے منسلک ظاہر ہوتے ہیں۔ ڈی این ایس کا دوسرے ملک کے ڈیٹا سرور سے منسلک ہوناسیاسی جھکاؤ کی ترجمانی کرتا ہے؟، بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں یہ کہنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ اس کا بہت کم امکان ہے کہ آپ اس کا تعلق سیاسی جھکاؤ سے جوڑ سکیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ کسی ویب سائٹ کے ڈی این ایس ایڈریس کا کسی دوسرے ملک کے ڈیٹا سرور سے منسلک ہونا کسی بھی قسم کی سیاسی جھکاؤ کی ترجمانی نہیں کر سکتا۔ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی بڑی ڈیجیٹل کمپنیوں کے ڈیٹا سرور دنیا کے مخلتف ممالک میں موجود ہیں۔ جیسا کے ڈیجیٹل اوشن ڈیٹا سرور کمپنی ایک امریکن کمپنی ہے اور اس کا صدر دفتر نیویارک میں ہے۔ یہ دنیا میں کلاؤڈ سروس فراہم کرتے ہیں اور ان کے ڈیٹا سرور دنیا میں بہت سے ممالک میں ہیں۔بدر خوشنود کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل ورلڈ میں تیزی سے ترقی آنے کے بعد اب دنیا بھر میں ایمازون، مائیکروسافٹ سمیت دنیا کی بڑی کمپنیاں اب نیٹ ورک اوپٹیمائزیشن کا طریقہ کار اپنائے ہوئے ہیں۔
اب آتے ہیں چگادڑ قسم کے لوگوں کے دوسرے الزام کی طرف جو ہر بار اصل ایشو سے توجہ ہٹانے کیلئے لگایا جاتا ہے کہ عاصمہ شیرازی نے سرکاری حج کیا، سرکاری حاجن وغیرہ وغیرہ، ۔۔۔ جی بالکل سرکاری حج کیا، ساتھ میں یہ کیوں نہیں بتاتے کہ عاصمہ شیرازی نے اس کو آن کیمرا تسلیم کیا، اور حج پر صَرف ہونے والی ساری رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی، اپنی کم علمی اور غلطی کو سب کو سامنے برملا تسلیم کیا، تم لوگوں میں تو یہ بھی ہمت نہیں کہ اپنی غلطی کو تسلیم کرسکو، آئین کو پامال کرتے ہو، اداروں کو برباد کرتے ہو، اس کے باوجود تم محب الوطن ٹھہرے، بات تو صحافی اسد طور پر حملے سے شروع ہوئی تھی، آج 13 دن بیت گئے، سی سی ٹی وی فوٹیج ملنے کے باوجود افراد تک کیوں نہیں پہنچا جاسکا؟، کیوں بھارت کی اس مبینہ سازش کو بےنقاب نہیں کیا جاسکا؟، یہ کس کی ناکامی ہے؟۔ حامد میر کی تقریر میں استعمال ہونے الفاظ سے اتفاق نہیں، لیکن کیا صحافیوں پر ہونے والا تشددجھوٹ ہے؟، کیا اس تشدد کے خلاف آواز اٹھانے والے بھی غدار ہیں؟۔ مسنگ پرسنز کا مسئلہ اٹھاو تب غدار ، آزادی اظہار کا معاملہ اٹھاو غدار، یعنی سب غدار۔۔(نادر بلوچ)