تحریر: علی حسن۔۔
سابق وزیر آعظم عمران خان نے کہا ہے کہ © © ”صاف اور شفاف الیکشن نہ ہوئے تو ملک میں مزید انتشار پھیلے گا۔آج ہماری معیشت خطرے میں ہے، مجھے خوف ہے کہ ملک وہاں پہنچ جائے گا جہاں سری لنکا پہنچ گیا ہے“ ۔تحریک انصاف کے چیئرمین کی اپیل پر اسلام آباد‘کراچی ‘لاہور‘پشاور ‘کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں مہنگائی کے خلاف پی ٹی آئی نے اتوار کے روز احتجاجی مظاہرے کئے اور ریلیاں نکالیں ‘مظاہرین نے مہنگائی نامنظورکے نعرے لگائے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کا مطالبہ کیا۔ سابق وزیر آعظم فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ موجودہ حکمران ابھی تک اس کیفیت میں مبتلا ہیں کہ حکومت کی مدت کے خاتمہ کے بعد ہی انتخابات کرائے جا ئیں گے۔ جو لوگ بھی اس ملک میں فوری انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کرہے ہیں وہ اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ آخر جلد یا بدیر انتخابات ہی کیوں ؟ کیا انتخابات کے انعقاد سے پاکستان کو در پیش مسائل حل ہو سکیں گے ؟ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ ما ضی میں ہونے والے کسی بھی انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان کے مسائل حل ہونے یا فائدہ مند ہونے کی بجائے پاکستان کو درپیش مسائل کو مزید گھمبیر کر گئے ہیں۔ منتخب ہونے والے نمائندے کسی بھی ایسی تجاویز پر عمل نہیں کرا سکیں ہیں جو پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت دے سکیں۔ ہر انتخابات کے بعد پاکستان کی پیدا واری صلاحیت کمزور ہی ہو ئی ہے۔ پیداواری صلاحیت کمزور ہونے کی وجہ سے ملک کی بر آمدی قوت کم سے کم تر ہوتی گئی ہے۔ پیداواری صلاحیت میں کمزوری اور بر آمدی قوت میں گرتی ہوئی کمی ہی پاکستان کے تمام مسائل کا بنیادی سبب ہیں۔ ان اسباب کی بناءپر کیا انتخابات کا انعقاد صرف اس لئے کہ اقتدار پہلے سے اقتدار کی لزتوں سے اشناءکسی ایک گروہ کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ ماضی کی طرح اس ملک کے بے سہارا مفلوک الحال ، ننگے، بھوکے، بے گھر، بے زمین، ناخواندہ، روٹی روزی اور پانی سے محروم لوگوں پر حکمرانی کرتے رہیں۔ ویسے بھی اب تو ووٹ اور ووٹر کے بارے میں جو صورت حال نظر آرہی ہے وہ تو یہ ہی بتاتی ہے کہ عام ووٹر کو اس بات سے دلچسپی ہی نہیں ہے کہ ” کون آتا ہے، کون جاتا ہے“۔ اسے غرض ہی نہیں ہے کہ کیا ہوگا۔ یہ اس کا مرض اور مرضی ہی نہیں ہے۔
کراچی میں جمعہ 17جون کو ہونے والے ضمنی انتخابات کو ہی دیکھیں۔ اس کا نتیجہ دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے۔قومی اسمبلی حلقہ این اے دوسوچالیس کے ضمنی الیکشن کے نتائج کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار محمد ابوبکر کو10683ووٹ، تحریک لبیک پاکستان ( ٹی ایل پی )کے شہزادہ شہبا ز کو10618اورمہاجر قومی موومنٹ کے رفیع الدین کو8349ووٹ ملے۔ پیپلز پارٹی کے ناصر رحیم کو 5240 ووٹ ملے جبکہ پاک سر زمین پارٹی کے شبیر قائم خانی نے 4782 ووٹ حاصل کئے ۔ ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے آنے والوں یا لائے جانے والوں کا ،ٹرن آﺅٹ 8.38فیصد رہا۔ حلقہ میں کل ووٹرزکی تعداد 5 لاکھ 29 ہزار 855 ہے۔ صرف دس ہزار ووٹ حاصل کر کے پانچ لاکھ ووٹروں کی نمائندگی ہوگی؟ عام طور پر قومی اسمبلی کے حلقوں میں ڈھائی یا تین لاکھ ووٹر ہوتے ہیں۔ لیکن لاندھی کے اس حلقے میں پانچ لاکھ سے زائد ووٹر کیوں؟ اس ضمنی انتخاب میں 25 امیدوار میدان میں تھے جبکہ یہ نشست ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی اقبال محمد علی کے انتقال پر خالی ہوئی تھی۔ مرحوم نے 2018 کے عام انتخابات میں 61ہزار سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے ۔2018 میں ایک کیو ایم پاکستان کا امیدوار پہلے، تحریک لبیک پاکستان کا امیدوار دوسرے اور پاکستان ٹحریک انصاف کا امیدوار تیسرے نمبر پر رہے تھے ۔
اہم ترین سوال یہ ہے کہ عام ووٹروں کی انتخابات میں دلچسپی کیوں ختم ہو ر ہی ہے؟ کیا منتخب ہونے والا رکن ان کے کام نہیں آتا؟ کیا منتخب ہونے والے صاحب ان کے مسائل کو حل کرانے میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ ہی نہیں کرتے ہیں؟ کیا سیاسی پارٹیوں ان کے کے مسائل کے حل میں دلچسپی نہیں لیتی ہیں؟ کیا حکومتیں ان کی توقع پر پوری نہیں اتر رہی ہیں؟ کیا سرکاری مشینری انہیں در پیش مشکالات اور مسائل کو فوری حل تلاش نہیں کرتی ہیں یا نہیں کر پاتی ہیں؟ عام لوگوں کے مسائل بھی عام نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم، گھر کے افراد کا علاج معالجہ، پینے اور استعمال کے لئے پانی کی فراہمی، وغیرہ جیسے مسائل۔ اس سے زیادہ اہم مسائل ذاتی گھر کا انتظام، بیٹیوں کی شادیوں پر پیسوں کا انتظام وغیرہ ۔ یہ عام لوگوں کے لئے تو بہت اہم مسائل ہیں لیکن ان سے جو لوگ ووٹ مانگنے آتے ہیں ان کے لئے یہ مسائل اونٹ کے منہ میں زیرہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ووٹ لینے کے خواہش مند افراد ووٹروں کو گدا گر جتنی اہمیت بھی نہیں دیتے ہیں۔ جب انہیں اہمیت ہی نہیں دی جائے گی، انتخابات کے بعد ان سے ملاقاتیں نہیں ہوں گی تو ان کی بھی پولنگ اسٹیشن پر آمد نہیں ہوگی۔ جیسا اوپر کراچی میں ہونے والے ضمنی انتخاب کا ذکر کیا گیا ہے۔
انتخابی عمل اور قوانین میں اصلاحات کو بڑا چرچا ہوتا ہے۔ لیکن اصلاحات وہ ہی کی جاتی ہیں جو دولت مند سیاست دانوں کے فائدے میں ہوتی ہیں۔ یہ اصلاح کیوں نہیں کی جاتی کہ جس حلقے میں کامیاب امیدوار حلقے میں درج ووٹوں کا آدھا حصہ حاصل نہیں کرے گا ، اس حلقے میں دوبارہ انتخابات ہوں گے۔ کیوں ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے کہ کامیاب امیدوار کے لئے حلقہ میں درج ووٹوں کے آدھے ووٹ حاصل کرنا ضروری ہوں گے؟ کیوں نہیں الیکشن کمیشن کو مجبور کیا جاتا ہے کہ تمام حلقوں میں ووٹوں کی تعداد کم و پیش ایک جیسی ہی ہونا چاہئے۔ یہ کہاں کی منطق ہے کہ کسی حلقے میں ووٹروں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ تو کسی میں دو لاکھ سے کم۔ منتخب ہونے والے نمائندے کو کیوں پابند نہیں کیا جاتا ہے کہ وہ مہینہ میں کم از کم سات روز اپنے ووٹروں کے درمیاں گزارے گا جس کی رپورٹ باقائدگی کے ساتھ الیکن کمیشن میں جمع کرائی جائے گی۔ اگر با مقصد اصلاحات نہیں کی یا کرائی جا سکتی ہیں تو پھر انتخابات کا کیا فائدہ؟ کسی دستور میں بے فائدہ اور بے مقصد انتخابات کا ذکر پایا جاتا ہے؟ (علی حسن)