تحریر: محمد بلال غوری۔۔
جو لوگ احمد فراز کے فرزند شبلی فراز کو وزیر اطلاعات ونشریات بنائے جانے کے بعد جنرل (ر)عاصم سلیم باجوہ کو وزیراعظم کا معاونِ خصوصی برائے اطلاعات و نشریات تعینات کئے جانے کی منطق نہیں سمجھ پارہے، انہیں شاید معلوم ہی نہیں کہ حکومت کی ترجمانی کس قدر باریک کام ہے۔تلبیس اطلاعات کے اس پُرفتن دور میںوزارتِ اطلاعات و نشریات کا انتظام وانصرام سنبھالنا کسی ایک فرد کے بس کی بات نہیں۔ ماضی میں بھی اس سے ملتے جلتے بندوبست کے تحت کام چلایا جاتا رہا ہے۔
پاکستان کے پہلے سات وزرائے اعظم وزارت اطلاعات کیا چلاتے، وہ بیچارے تو اپنی وزارت عظمیٰ نہ بچا پائے۔ تاہم پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کے دور میںاطلاعات ونشریات کی وزارت پر کماحقہٗ توجہ دی گئی۔ ایوب خان کی پہلی کابینہ میں ذوالفقارعلی بھٹو نے کامرس کیساتھ ساتھ اطلاعات و نشریات کاقلمدان سنبھالے رکھاجبکہ دوسری کابینہ میں خواجہ شہاب الدین وزیر اطلاعات مقرر ہوئےمگرحکومتی بیانیہ متشکل کرنے اور اس کا ڈھنڈورا پیٹنے کے لئےپالیسیاں تشکیل دینے کی ذمہ داری سیکرٹری اطلاعات و نشریات الطاف گوہر نے سنبھال رکھی تھی۔
شجاع نواز ’’کراس سوارڈز‘‘میں لکھتے ہیں کہ اس سیل کا مقصد معروف صحافیوں کی خدمات حاصل کرنا تھا تاکہ ان کے نام سے اخبارات میں مضامین اور کالم شائع ہوں جن میں حکومتی اقدامات کی تعریف کی جائے۔ اس دور میں وظیفہ خور صحافیوں کو اس سیل کی طرف سے 1ہزارسے 2ہزار روپے ماہانہ مشاہرہ دیا جاتا تھا۔
جنرل یحییٰ خان نے اطلاعات کی وزارت تو اپنے پاس ہی رکھی لیکن معروف بیوروکریٹ روئیداد خان اس دور کے ’’ڈی فیکٹو‘‘ وزیر اطلاعات تھے۔ روئیداد خان نے یہ وزارت اس قدر کامیابی سے چلائی کہ 16دسمبر 1971ء کی شام تک لوگ یہی سمجھ رہے تھے کہ بھارتی فوج کے دانت کھٹے کر دیے گئے ہیںاور سقوط ڈھاکا کی خبر بھارتی ریڈیو سے ملی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں کچھ عرصہ محمد حنیف خان نے وزارت اطلاعات سنبھالے رکھی مگر زیادہ عرصہ حکومتی ترجمانی کے فرائض مولانا کوثر نیازی نے سنبھالے رکھے۔ کوثر نیازی کے ساتھ نسیم احمد سیکرٹری اطلاعات ہوا کرتے تھے اور قیام پاکستان کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ اطلاعات و نشریات کی وزارت کا مکمل کنٹرول وفاقی وزیر کے پاس رہا۔ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو انہوں نے آئی ایس پی آر کی موجودگی میں وزارت واطلاعات ونشریات کو غیر ضروری سمجھا۔ 14جنوری 1978ء اور پھر 5جولائی 1978ء کو کابینہ نے حلف اٹھایا تو اطلاعات و نشریات کا قلمدان کسی کو دان نہ کیا گیا۔ 23اگست 1978ء کو ردوبدل کے بعد ایک بار پھر کابینہ نے حلف اُٹھایا تومحمود اعظم فاروقی کو اطلاعات ونشریات کا وزیر بنادیا گیا۔بظاہر تو محمود اعظم وفاقی وزیر تھے مگر وزارت اطلاعات چلانے کی ذمہ داری سیکرٹری انفارمیشن میجر جنرل مجیب الرحمٰن کے پاس تھی۔ جنرل ضیا کے معتمد جنرل خالد محمود عارف اپنی کتاب ’’ورکنگ وِد ضیا‘‘میں لکھتے ہیں کہ ایک بار کسی ناظر نے سیکرٹری اطلاعات کو ٹیلیفون کرکے کہا، براہ کرم میرا ٹیلی وژن ٹھیک کردیں ۔ جنرل مجیب الرحمٰن نے کہا، بھائی ٹی وی خراب ہے تو کسی مکینک کو بلائو۔ ٹیلیفون کرنے والے نے کہا، یہ مکینک کا کام نہیں، آپ ہی میری مدد کر سکتے ہیں۔ ایک مولوی صاحب پنجے جھاڑ کر میرے ٹی وی سیٹ کی اسکرین کے پیچھے پڑ گیا ہے اور یوں چپکا بیٹھا ہے کہ اُترنے کا نام نہیں لے رہا۔
حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو اسی جنرل مجیب الرحمٰن جس کے دور میں بھٹو اور بینظیر کیخلاف غلیظ ترین پروپیگنڈا کیا جاتا رہا، کو آصف زرداری نے صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ بہر حال جب محمد خان جونیجو وزیراعظم بنے تو انہوں نے سب سے پہلے جنرل مجیب الرحمٰن کو کھڈے لائن لگایا اور چوہدری شجاعت حسین کو وزیر اطلاعات و نشریات بنایا۔بینظیر نے بھی وزارت اطلاعات ونشریات کو کچھ خاص اہمیت نہ دی اور پہلے دور حکومت میں یکے بعد دیگرے جاوید جبار اور احمد سعید اعوان کو وزیر مملکت کی حیثیت سے حکومتی ترجمان مقرر کیا۔ دوسرے دور ِحکومت میں خالد احمد کھرل کو اطلاعات ونشریات کا وفاقی وزیر بنایا گیا لیکن ان کی کارکردگی بھی قابل ذکر نہیں رہی۔
نوازشریف اس کام کی باریکی سے واقف تھے اس لئے پہلے دور میں میاںعبدالستار لالیکا، دوسرے دور میں مشاہد حسین جبکہ تیسرے دور میں پرویز رشید کو یہ ذمہ داری سونپی۔ پہلے دور میں حسین حقانی اور دوسرے دور میں پرویز رشید چیئرمین پی ٹی وی کی حیثیت سے میڈیا ٹیم کا حصہ رہے۔ صدیق الفاروق جیسی شخصیات بھی اپنا کردار ادا کرتی رہیں۔
پرویز مشرف دور میں جاوید جبار، جمالی کابینہ میں شیخ رشید، شوکت عزیز کابینہ میں پہلے شیخ رشید اور پھر محمد علی درانی نے وزارت اطلاعات کا قلمدان سنبھالے رکھا مگر ڈی جی آئی ایس پی آر کی حیثیت سے پہلے راشد قریشی اور پھر شوکت سلطان نے اصل مورچہ سنبھالے رکھا۔گیلانی کی کابینہ میں شیری رحمٰن، پرویز اشرف کے ساتھ قمر زمان کائرہ جبکہ شاہد خاقان کے دور میں مریم اورنگ زیب نے ترجمانی کے فرائض سرانجام دیے۔
عمران خان وزیراعظم بنے تو فواد چوہدری کو اطلاعات و نشریات کا قلمدان سونپا گیا اور ساتھ بیشمار میڈیا ایڈوائزر، معاونین خصوصی اور ترجمان بنادیے گئے۔ کابینہ میں ردوبدل ہوا تو فردوس عاشق اعوان نے معاون خصوصی کی حیثیت سے یہ وزارت سنبھال لی۔موجودہ حکومت کے ہاں وفاق اور صوبوں میں ترجمان تو بیشمار ہیں مگر پھر بھی ’’شکریہ‘‘ والا ماحول نہیں بن پا رہا تھا۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے بطور عسکری ترجمان اپنی ذمہ داریاں نہایت احسن طریقے سے انجام دی تھیں، اسی تجربے کے پیشِ نظر اب انہیں مشیر مقرر کیا گیاہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔