تحریر: کاظم رضا ، کینیڈا۔۔
میں آج جو بات کرنے جا رہا ہوں، وہ ہو سکتا ہے آپ میں سے بہت سوں کو پسند نہ آئے،، مگر میں نے اس کی ضرورت کو سمجھا اس لئے کرنا ضروری ہے۔میں بات کرنا چاہتا ہوں نوحہ خوانی پر۔۔
ایک وقت تھا جب نوحہ خوانی کے لیے ایک معمولی سے اسٹوڈیو میں آڈیو اور ویڈیو ریکارڈ کر لی جا تی تھیں مگر اس کی تیاری اور سب سے بڑ ھ کر اس کی شاعری پر پورے سال کام کیا جاتا تھا، یہی وجہ تھی جو لوگ پیسے خرچ کرکے کیسٹ، سی ڈیز وغیرہ خریدا کرتے تھے اور گھنٹوں گھنٹوں تک گھروں میں لگا کر سنا کرتے تھے۔پھر بتدریج ریکارڈنگ خصوصاََ ویڈیو ریکارڈنگ اہمیت اختیار کرتے گئے اور شاعری کہیں بہت پیچھے رہ گئی۔۔
اب آہستہ آہستہ شاعری کی جگہ لیرکس۔۔ یعنی بول نے لے لی۔۔ جیسے گانوں کے بول ہوتے ہیں، چاہے الفاظ کے معنی بہت عام سے ہی کیوں نہ ہوں۔۔ بس طرز، میوزک اور آواز کے ملاپ سے الفاظ کی عمومیت کو ڈھانپ لیا جاتا ہے۔ یہی حال آج کے نوحہ خوانوں کا بھی ہے۔
شور شرابہ ، چیخنا چلانا، اور زبردستی کی اداکاری۔۔ جیسے آپ شاید میدان جنگ میں کھڑے ہوں۔ اس سب میں سوگ، درد، اداسی اور غم کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔
اور اس میں سب سے بڑا کردار میرے اور ہم سب کے ہر دل عزیز نوحہ خواں جناب ندیم سرور کا ہے۔ کیوں کہ ندیم سرور صاحب عصر حاضر میں نوحہ خوانی کے لیے ایک سند کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ یعنی جو جدت وہ لاتے ہیں، اسے دیگر نوحہ خواں آنے والے برسوں میں اپناتے ہیں۔
مجھے نہیں یاد کہ ندیم سرور صاحب کے عظیم شاعر جناب ریحان اعظمی مرحوم سے راہیں جدا کرنے کے بعد کوئی ایسا نوحہ تخلیق کیا ہو جس میں واقعی کسی تخیل کو لفظوں کے حسین امتزاج سے بنا گیا ہو۔ ندیم سرور صاحب نے خود اور ایک ماتحت شاعر جواد جعفری یا علی شناور وغیرہ کے ساتھ مل کر جب سے شاعری کرنا شروع کی ہے، خدا کی قسم پچھلے کئی برسوں میں شاید ہی کوئی نوحہ ایسا ہو جسے ایک بار سن کر دوبارہ سننے کا دل چاہا ہو۔ ہاں مگر دس برس سے پہلے کے نوحے آج بھی پڑھتا اور سنتا ہوں۔۔
جب ریحان اعظمی جناب صغریٰ کے لہجے میں لکھتے ہیں، سب پھولوں کے گہنوں میں سنواری دلہن آئے۔۔ تم جیسے ہو بس ویسی ہی پیاری دلہن آئے۔۔ یہ جملے آنے والی نسلوں تک بھائی اور بہن کے پیار کی عکاسی کرتے رہیں گے۔
اور جب ہلال نقوی کہتے ہیں کہ کوئی ہو تو چلے۔۔ استغاثہ ہے سرِ راہ۔۔۔
کوئی ہو تو چلے۔۔ ایک پیاسے پے ہے یلغار۔۔ بیڑیاں ہوتی ہے تیار۔۔ کوئی ہو تو چلے۔۔
یا پھر میر انیس کا مرثیہ، مسافرانِ مصیبت وطن میں آتے ہیں۔۔۔ سفر سے آتے ہیں سوغاتِ گرد لاتے ہیں۔۔
اب سروں میں مٹی پڑ جانا، مفلسی اور بدحالی کی نشانی ہے۔ جب کہ سوغات تو کسی علاقے کی کسی خاص شے کو کہا جاتا ہے۔ مگر میر انیس نے کس خوب صورتی سے سروں میں پڑی خاک کو کربلا کی سوغات قرار دیا ہے۔۔ یہ خیال بڑے اور عملی ذہنوں میں ہی جنم لیتے ہیں۔ ندیم سرور صاحب یا جواد جعفری صاحب اپنی ساری زندگی میں ایسا خوبصورت ایک جملہ نہیں لکھ سکتے۔۔
جب سے ندیم سرور صاحب نے اس خوبصورت ذمہ داری سے شعراء کو باہر نکالا ہے، اور اپنے بچوں کو شامل کیا ہے، نوحہ خوانی کی خوبصورتی ماند پڑ گئی ہے۔
گذارش یہ ہے کہ جیسے آپ گلے سے نکلنے والا سحر انگیز لہن اللہ کی آپ پر عنایت ہے، ایسے ہی شاعری یا تخیل کا نزول بھی ہر کسی کے ذہن پر نہیں ہوتا۔۔ آپ کے پچھلے دس سال کے نوحے عام نوعیت کے الفاظ کا عمومی سا مجموعہ ہوتے ہیں۔ لہذا برائے مہربانی جو کام اللہ نے آپ سے نہیں لینا، اسے اپنے ہاتھ میں مت لیں۔
اپنی اناء کے بُت توڑیں اور شعراء سے رجوع کریں۔۔ آپ نوحوں کی طرز بنانے اور تخیل کے ماہر ہیں۔ مگر لکھنا آپ نے نہ سیکھا ہے، نہ آپ کبھی سیکھ سکتے ہیں۔ اور آپ کے بچوں نے تو پاکستان میں وقت بھی نہیں گذارا ہے، محرم کا انتظار نہیں کیا۔ گلیوں گلیوں میں علم لے کر نہیں پھرے۔۔ بڑے علماء کی مجالس میں شرکت کے لیے گھنٹو ں کا سفر نہیں کیا۔۔ انچولی، ملیر اور نمائش کے کھچاکھچ بھرے مجمع جوتیوں کے پاس ملنے والی تھوڑی سی جگہ پر بیٹھ کر طالب جوہری کی مجالس نہیں سنیں۔۔ تو آپ کیسے ان کے زبان و بیان کو معیاری سمجھ سکتے ہیں۔
ہمارا بچپن بہت اچھا تھا، ہم نے نوحے سن کر الفاظ کا ذخیرہ جمع کیا، فضائل سنے تو بات سے بات نکالنا آئی اور حسِ مزاح مستحکم ہوئی۔ مصائب سنتے ہوئے جب دماغ میں وہ مناظر رونما ہوتے تھے تو ہمیں تمثیل نگاری سمجھ آنے لگی۔۔ کرداری نگاری سیکھی، اچھے کرداروں اور برے کرداروں کا فرق واضح ہوا۔ اردو کے دو جملے بولنا اور لکھنا آگئے۔ ہم نے کبھی زندگی میں بانو قدسیہ کے ناول یا اشفاق صاحب کے ڈرامے نہیں پڑھے تھے، مگر اس کے باوجود ان مجالس اور نوحوں کی شاعری سن کر لکھنے کے تھوڑا بہت فن آگیا تھا۔۔بعد میں جب اسی کو پیشہ بنایا تو بہر حال ڈراموں کے اسکرپٹ بھی پڑھے۔
ریحان اعظمی، میر انیس، انیس پہرسری کے کلام سن کرخیالات کو لفظوں میں پرونے کا ہنر سیکھا۔۔ پھر پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری میں کام کیا، کہانیاں لکھیں، ڈائیلاگ لکھے۔ پروگرامز کے اشتہارات کے لیے لکھا۔۔ بغیر کسی اردو ادب کے پڑھے یہ سب کام سیکھا اور انجام دیا۔۔ یہ سب ان مجالس کی ہی دین تھا۔۔
آج کے نوحے سنتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ آج کے نوحہ خواں جانے کہاں سے inspirationلیتے ہیں کہ ویڈیو اور آڈیو کوالٹی میں جدت آتی جا رہی ہے، مگر الفاظ سارے بے اثر۔۔۔
شاید گذشتہ برسوں میں کوئی ایک بھی ایسا جملہ یا خیال سنا ہو جسے سن کر دوبارہ سننے کا دل کیا ہو۔۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عمومی نوعیت کے الفاظ کا معمولی سا اسٹاک ہے، اور جو لفظ جہاں سیٹ بیٹھا، وہیں بٹھا دیا اور اللہ اللہ خیر سلیٰ۔۔
ان تمام معزز نوحہ خوانوں خصوصاََ جناب ندیم رضا سرور کو واقعی میں اپنے جدید نوحوں کی حقیقت جاننی ہو تو انچولی اور ملیر کی گلیوں میں گھوم کر دیکھیں وہاں گھر گھر میں آج بھی آپ کے برسوں پرانے نوحے پڑھے جاتے ہیں۔ نئے نوحے شاز و نادر ہی کسی گھر میں پڑھے جاتے ہوں۔ کیوں کہ نہ تو ان کے انداز عام فہم ہوتے ہیں اور نہ ان کی بناوٹ ایسی جسے بار بار دہرایا جائے۔۔
میں پچھلے پانچ برس سے یہاں کینیڈا کے ایک چھوٹے سے شہر میں کل پانچ یا چھ گھرانوں کے ساتھ مل کر مجلس کا اہتمام کرتا ہوں۔۔ میں آج تک کسی نوحہ خواں کا کوئی نیا نوحہ نہ پڑھا اور نہ کسی اورسے سنا۔۔۔ گویا نوحہ خوانی کی دو الگ الگ اقسام بن گئی ہیں۔۔ مجالس کے نوحے الگ اور کمرشل یوٹیوب والے الگ۔۔۔
کبھی ندیم سرور صاحب ڈبلیو گیارا میں نو دس محرم کو سفر کریں تو پتا چلے۔۔ دیکھو اے کوفیوں میں زینب دلگیر ہوں۔۔ نہ رو زینب نہ رو۔۔ میرے جگر کے ٹکڑے نہ رو۔۔ جیسے نوحے آج بھی کتنے چاہ سے چلائے جاتے ہیں۔ کل کسی نے یہاں مجلس میں نوحہ پڑھا۔۔۔ ہاں تھا میرا بابا۔۔ میرے لیے زندہ۔۔ کیا خوبصورت خیال اور مسحور کن اندازتھا ان پرانے کلاموں کا۔۔
میری گذارش ہے اگر کوئی آپ تک پہنچا سکے تو۔۔ خدارا نئے نوحے بنانے کے عمل کو کچھ عرصے کے لیے روک کر پرانے کلام دوبارہ سے پڑھیں، لوگ کہیں بڑھ کر پھر سے سنیں گے۔۔ شعراء سے رجوع کریں، کیوں کہ فنِ نوحہ خوانی صرف آپ کا ذاتی پیشہ نہیں بلکہ ملت تشیع کی فکری اور ادبی تربیت کے لیے ایک بڑی ذمہ داری ہے۔
نوحہ خوانی ایک مذہبی رسم کے ساتھ ساتھ لوگوں میں آرٹ کی مختلف اقسام کا شوق پیدا کرنے کا ذریعہ رہی ہے۔ جیسے وہ بچے جو کہانیاں پڑھتے اور سنتے ہیں، ان کے ذہن زیادہ Creativeہوتے ہیں۔۔ اور پھر وہ یہ Creativity جس شعبے میں بھی کام کریں apply کرتے ہیں۔ برائے مہربانی ملت تشیع کے اس سوشل فیبرک کو تباہ نہ کریں۔
آپ ایک قدم پیچھے ہٹ کر اپنے برسوں پرانے کلام دوبارہ پڑھیں گے، تو یہ آپ کے سامنے کے بچے یہ عرفان، فرحان اور دیگر ہزاروں نوحہ خواں بھی اپنی سمت درست کریں گے۔ ورنہ جیسے میری طرح کے ہزاروں لوگ نئے نوحوں میں سے حقیقی تخیل ناپید ہوجانے کی وجہ سے بیزار ہو رہے ہیں، نئی نسل میں کوئی نئے نوحوں کاسننے والا بھی نہیں ملے گا۔۔
اللہ نے آپ کو بہت عزت اور مرتبہ دیا ہے، اور یہ مرتبہ اپنے ساتھ بڑی ذمہ داری لے کر آتا ہے۔ اس فن کو ناپید ہونے سے بچائیں، نوحہ خوانی کی اصل روح ایک اچھا خیال، اس کے اظہار کے لیے اچھا الفاظ کا چناؤ۔۔ ان الفاظ کی بُنت۔۔ اس میں عربی اور فارسی کے اسٹرکچرز کا استعمال۔۔ یہ سب نوحہ خوانی کا خاصہ ہوا کرتا تھا۔۔
جب ہلال نقوی لکھنے ہیں، بے زباں بچے بھی بے سر ہوگئے۔۔ کتنی بڑی بات کو چند الفاظ میں پرو دیا۔۔۔ آپ اور آپ کے معاونین ساری زندگی میں ایسا ایک خوبصورت جملہ نہیں لکھ سکتے۔۔ بالکل اسی طرح جیسے ریحان اعظمی، مظہر عابدی، ہلال نقوی آپ کے انداز میں ایک جملہ پڑھ نہیں سکتے۔۔
ہر ایک کا اپنا ہُنر ہے، ہر ایک کی اپنی ذمہ داری ہے۔۔ یہ سلسلہ جاری تو رہے گا، مگر آپ سوچئے آپ کی لیگیسی چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ اگر کچھ نہیں ہو رہا تو بڑے کھلاڑیوں کی طرح ریٹائرمنٹ لے لیجئے۔۔ جیسے وہ اپنے کیرئیر کے عروج پر اسے خیر آباد کہہ دیتے ہیں۔۔ پھر نئی نسل کی رہنمائی کرتے ہیں۔ تو جناب نیا کرنے کے چکر میں اس فن کو تباہ نہ کیجئے بلکہ نئی نسل کی تربیت کیجئے۔۔ عزاداری پہلے ہی بہت کمرشل ہو چکی ہے۔ نوحہ خوانوں بالخصوص فرحان صاحب کی ہیرو گیری دیکھ کر تو لگتا ہے عزاداری ان لوگوں کے لیے اے ٹی ایم مشین ہے۔۔ اسے مزید کمرشلائزڈ نہ کریں۔۔ ایک ایک قدم سب پیچھے ہٹیں۔۔ تاکہ میرے بچے بھی نوحے سن کر ان میں دلچسپی لیں۔ اس سے زبان کو بیان سیکھیں۔ اور ان میں حُب اہلبیت پیدا ہو۔۔(کاظم رضا، کینیڈا)۔۔