asad toor kis kulhaari ka dasta

اسد طور کس کلہاڑی کا دستہ؟

تحریر: ارسلان صدیقی۔۔

افواہ، شک اور بے یقینی معاشروں اور مملکتوں کے لیےزہر قاتل ہیں ۔ افواہ لوگوں کو غلط راستے پر ڈال دیتی ہے۔ شک انسان کو نفسیاتی طور پر بیمار کردیتا ہے اور بے یقینی معاشرے سے خود اعتمادی چھین لیتی ہے۔ ایسے میں معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا بلکہ ذلت کی بدترین موت مرجاتا ہے۔ اللہ نے قرآن میں ان تینوں سے معاشرے کو بچانے کی ہدایات دیں اور اپنے خاص دوستوں کو نبی یعنی خبر دینے والا اور رسول یعنی ابلاغ کرنے والا بہ الفاظ دیگر صحافی بناکر بھیجا تاکہ وہ افواہ کے بجائے چھپی ہوئی غیبی خبریں دےکر شک دور کریں اور معاشرے کو یقین یعنی ایمان کی دولت دے کر پائیدار ترقی کا باعث بنائیں۔آج  کی سائنسی و سماجی ترقی کے پیچھےسیدالانبیاء کی صحافت و ابلاغ ہی ہے جس کی وجہ سے انسان کائنات کو تسخیر کررہا ہے۔کہنا یہ ہے کہ صحافت کوئی معمولی کام نہیں کہ ہر ایراغیرا نتھوخیرا سینیر صحافی بن کر نمودار ہو اور کچھ بھی بکتا پھرے اور ہم اسے صحافی مان لیں۔ یہ انبیاء کی سنت ہے اور صحافی کو صحافی ماننے کے لیے اسٹینڈرڈ بھی وہی ہوگا جو اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے۔

حالیہ دنوں میں اسلام آباد کے ایک نام نہاد صحافی اسد علی طور کا بڑا چرچہ ہے۔ جو ہماری ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کی جگ رسوائی کا سبب بن رہا ہے۔اسد علی طور کے مبینہ الزامات کےباعث معاشرے میں بے یقینی پھیل رہی ہے اور خبر کے بجائے افواہیں گردش کررہی ہیں، اسد طور اور انکے جیسے کئی اور پے پیندے کے لوٹوں نے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے تاکہ پاکستان کی ترقی کو روکا جاسکے اور معاشرہ فضول کی بحث میں پڑ کر ڈانوں اڈول ہوتارہے۔ اسی دوران معروف اینکرحامدمیر بھی اسد طورکےحق میں آواز اٹھانے پہنچ گئےاورعسکری و دفاعی اداروں کو جی بھر کر کوسنا شروع کردیا۔ یقیناً یہ بات کسی پاکستانی کو برداشت نہیں ہوئی۔

ایسے حالات میں آن لائن جرنل ازم پاکستان  جو مادر وطن کی نظریاتی سرحدوں کا محافظ ہے۔ ہم اس پورے واقعےکوہائیبرڈ وارکاحملہ تصورکرتے ہیں اور ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کا بھرپور جواب دیں اور ہم وطنوں کو آگاہ کریں کہ فنی و نظریاتی اعتبار سے اسد علی طور،حامد میر اور ان جیسے دیگر لوگوں کی حب الوطنی مشکوک  ہو چکی ہے اب انہیں صحافی تسلیم نہ  کیاجائے اور نہ ہی  انکی مشکوک ابلاغ پرکان دھرے جائیں۔آن لائن جرنل ازم   تمام صحافتی تنظیموں سے بھی درخواست کرتی ہے کہ اس عمل کی  مذمت کی جائے  اور مذکورہ  بالاافرادکی رکنیت معطل کردی جائے۔

  • کیونکہ صحافی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی ریاست اور اپنے لوگوں کے ساتھ وفادار اور مخلص ہو۔
  • دوم صحافی افواہوں کے بجائے مصدقہ خبر دے نہ کہ شک و بے یقینی کی فضاء کا سبب بنے۔
  • سوم یہ کہ صحافی کائنات اور اسکی مخلوقات کی ابلاغ کے ذریعے مستحکم ترقی کا باعث بنے۔

یہ تینوں بنیادی خصوصیات مذکورہ بالا شخصیات میں نہیں ہیں لہذا آن لائن جرنل ازم پاکستان ایسے شرپسندوں کو بھیڑ کے روپ میں بھیڑیا سمجھتا ہے۔ اور عدلیہ و قانون نافذ کرنے والے اداروں سے استدعا کرتا ہے کہ فی الفور قانون کے مطابق ایسے شرپسندوں کو روکا جائے۔ کیونکہ یہ بلیک میلرز پاکستان کے ساتھ غداری کی حدود پار کرنے لگے ہیں۔

یہاں ہم یہ بھی باور کرانا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی صحافی اپنے ملک کے جاسوسی کے اداروں پر الزام تراشی نہیں کرتا کیونکہ اپنے وطن کی حفاظت کے لیے دشمن کی جاسوسی کرنا کوئی آسان کام نہیں، یہ وہ کفن پوش مجاھدین ہوتے ہیں جن کے لیے اقبال نے کہا تھا کہ “شھادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن۔ نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔۔۔یعنی کفن میں چھپے ان چہروں کو دنیا کچھ بھی سمجھے یہ اللہ کی مخلوق کو شیطانوں کی ہر چال سے باخبر رکھتے ہیں۔

کہنا یہ ہے کہ اسد علی طور اور ان جیسے جتنے لوگ بھی آئی ایس آئی یا پاک فوج پر الزام تراشیاں کرتے ہیں ان سے پوچھا جائے وہ کس ملک کے ایجنٹ ہیں اور کس کے ساتھ وفاداری نبھا رہے ہیں۔ ریاستی اداروں سے بغض چہ معنی دارد؟

بحیثیت پاکستانی صحافی میں بھی اکثر تنقید کرتا ہوں،  لیکن اپنی ریاست یا اسکے اداروں پر نہیں بلکہ براہ راست پالیسی اور شخصیات پر۔ کیونکہ شخصیت غلط ہو سکتی ہے ادارہ یا ریاست نہیں، فوج میری ہے، ملک میرا ہے، میری حب الوطنی مجھے کبھی اپنے گھر کا مخالف نہیں ہونے دیتی۔

اب سوال یہ ہے کہ اسد طور بے یقینی کی فضاء کیوں پھیلارہا ہے اور کس کے کہنے پر پھیلا رہا ہے؟سوال یہ بھی ہے کہ اسد طور ریاستی اداروں  سے نالاں ہیں یا ان میں موجود کچھ لوگوں سے؟اور سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا ریاستی اداروں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اسد طور جیسے فکری بانجھ لوگوں کو اپنے ذاتی مفادات ومقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ؟اور جب یہ لوگ اپنی اڑان اڑنے لگتے ہیں تو انہیں اپنے اثر و رسوخ سے دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا اس طرح  ذاتی مفادات کی جنگ اداروں کی جنگ بن کر سامنے آتی ہے۔

بے یقینی کی فضا کو ختم کرنے کے لیے تفتیش تو کرنا ہوگی، تاہم عدلیہ اور حکومت کو چاہیئے کہ فی الفور نوٹس لے کر پاکستان کے امیج کو مزید خراب ہونے سے روکے۔(ارسلان صدیقی)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں