تحریر: یاسر عباس۔۔
آج کا موضوع گفتگو ملک کا اس وقت کا سب سے بڑا نشر یاتی ادارہ اور اس ادارے کے بڑھتے ہو ئے تنازعات ہیں۔کسی بھی ادارہ پر پابندی لگنا یا اس کے نمبر تبدیل ہونا ایک معمول بن چکا ہے۔ بالخصوص مسلم لیگ نون کی حکومت میں یہ کام ایک عام روایت ہے کہ جو چینل آپ کے خلاف بولے اس کو پکڑ کر بند کر دو،مالکان اور صحافیوں پر دہشتگردی کے پرچے بنواؤ۔ن لیگ کی باقی پالیسیوں میں جتنی بھی لچک آئی ہو ایک پالیسی پر وہ قائم ہیں کہ جو بھی نون لیگ کی شان میں گستاخی کرے اسے پابند سلاسل کر دو۔پچھلے دور حکومت میں بھی اس پارٹی نے بول نیوز جیسے ادارے کی ایسی کمر توڑی کہ وہ اب تک سیدھے نا ہو سکے۔اسی طرح اب اے آر وائی نشانے پر ہے۔جبکہ دوسری طرف کچھ من پسند صحافی اور صحافتی ادارے بھی ہیں جو ن لیگ
کے دور حکومت میں فُل ٹائم کھابا پروگرام جاری رکھتے ہیں اور بدلے میں ن لیگ کی ہر غلط یا صحیح پالیسی کا ڈٹ کر دفاع کرتے ہیں۔یہ روایت نہ صرف ن لیگ کی ہے بلکہ تحریک انصاف بھی اس میدان میں کافی بہترین پرفارم کرتی دکھائی دی۔ان کے دور حکومت میں بھی جیو گروپ کے مالک پر مقدمات اور نمبر تبدیل ہونا معمول رہا۔ملک کے نامور صحافیوں کے پروگرام بند ہوئے جن میں رؤف کلاسرا،عامر متین اور حامد میر جیسے نام شامل ہیں۔
اب بات کرتے ہیں اے آر وائی گروپ کی2022کے شروعاتی مہینوں تک یہ گروپ معمول کے طریقے سے چل رہا تھا اور مقتدر حلقوں کا پسندیدہ تھا اور عام طور پر تاثر یہ تھا کہ یہ گروپ ہر حالت میں انہی حلقوں کی لائن لیتا ہے۔لیکن پھر عمران حکومت کا خا تمہ ہوا اور اس گروپ نے ان حلقوں سے بے وفائی اور وہ بھی سرعام بے وفائی کی اور تحریک انصاف کے مو قف کو بڑھاوا دیا۔اس چینل کے کچھ صحا فیوں نے تو تمام حدیں پار کیں پھر چاہے وہ کون تھا ہو یا ُامِ حریم ۔۔ارشد شریف سمیت دیگر تجزیہ کا روں نے کھل کر تنقیدی تیر برسائے۔اس کے بعد ارشد شریف نےکچھ آڈٹ شدہ رپورٹس بھی نشر کیں جن میں آئی ایس پی آر کے فنڈز سے بننے والے گانوں اور پراجیکٹس کا ڈیٹا موجود تھا۔اب یہ وہ وقت تھا جب ان حلقوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا جو کہ نہ صرف اے آر وائی کے لیے پریشان کن ثابت ہوا بلکہ اس سے جڑے ہر ایک شخص کو ایسا دھچکہ لگا کہ وہ دنگ رہ گیا۔شہباز گل کے بیان کو بنیاد بنا کر اس گروپ کے خلاف کاروائی شروع کی گئی۔
اے آر وائی نیوز کو بند کیاگیا، تمام کیبل آپریٹرز کو آگاہ کیا گیا۔اسی روز پولیس لائیو پروگرام کے دوران چینل کے اسلام آباد دفتر کے نیچے پہنچی اور پوچھ گچھ کرتی رہی۔اُسی رات ادارے کے ہیڈ آف نیوزعماد یوسف کو ان کے گھر سے گرفتار کر لیا گیا اور نا معلوم مقام پر منتقل کر دیا۔سلمان اقبال،ارشد شریف،عدیل راجہ،اور خاور گھمن پر مقدمہ بنایا گیا۔اگلے روز خبر آئی کہ ارشد شریف پشاور سے دبئی روانہ ہوگئے۔۔عماد یوسف کے خلاف مقدمہ خارج کرکے انہیں باعزت بری کردیاگیا۔۔ لیکن وزارت داخلہ نے اے آر وائی کا این او سی(سیکورٹی کلیئرنس) منسوخ کردیا جس سےنہ صرف مالکان بلکہ اس ادارے سے جڑے چارہزار زائد ورکرز کا معاشی قتل عام ہوگیا۔۔اے آروائی کے کئی حامیوں نے بار ہا یہ بات مالکان کو سمجھائی کہ جس ڈگر پر آپ چل پڑے یہ صحیح نہیں لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہے او ر آج اس کے اثرات پورا ادارہ بھگت رہا ہے۔۔چاہے حکومت کسی کی بھی ہو اداروں کو بند کرنا ان پر پابندیاں لگانا ہر گز جمہوری عمل نہیں۔اس معاملے پراے آروائی بارہا اپنا موقف پیش کر چکا کہ شہباز گل نے جو کچھ کہا وہ ان کی ذاتی رائے تھی،ادارے کا اس سے کوئی تعلق نہیں، لیکن مشکلات کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہیں اور ان کا حل صرف ان حلقوں کے پاس ہے جن کا کبھی یہ ادارہ پیارا ہوتا تھا۔
لیکن حالات جو کچھ بھی ہوں اس طرح ملک کے سب سے بڑے چینل کو بند کر دینا مسئلوں کا حل نہیں۔اللہ کی ذات سے یہی دعا ہے کہ ادارے کی مشکلات کو آسان فرمائے اور اس سے وابستہ لوگوں کاسلسلہ روزگار قائم رہے۔ (یاسر عباس)۔۔