شہید ارشد شریف کے معاملے پر اے آر وائی نیوز کے صحافی سوشل میڈیا پر آمنے سامنے، سینئر نائب صدر بھی کود پڑے۔۔ اسلام آباد سے اے آر وائی نیوز کے رپورٹر حسن ایوب خان نے ٹوئٹ میں دعویٰ کیا کہ “زرائع کے مطابق شہید ارشد شریف کا چیف جسٹس کو لکھا گیا خط چیف جسٹس پاکستان کو کبھی موصول ہی نہیں ہوا تھا۔ جب خط چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو موصول ہی نہیں ہوا تھا تو وہ اس پر ایکشن کیا لیتے۔یہ ٹوئٹ ارشد شریف کے پروگرام”پاورپلے” کے پروڈیوسر عدیل راجا کو ناگوار گزرا تو انھوں نے اپنے ردعمل میں نہ صرف حسن ایوب کے دعوے کی تردید کی بلکہ حسن ایوب پر چیف جسٹس کے حق میں مہم چلانے کا الزام بھی لگا دیا عدیل راجا نے لکھا ” خط بالکل موصول ہوا تھا۔ آپ اب چیف جسٹس کے حق میں کیمپین لے کر آ گئے ہو جس کے نہ ایکشن لینے کی وجہ سے ارشد کو ملک چھوڑنا پڑا۔۔ کمال ہے یار۔۔ کیا کیا جھوٹ فروخت کیا جا رہا ہے۔۔عدیل راجا کے الزام پر حسن ایوب نے جواب میں لکھا ” میں ہوا میں بات نہیں کرتا محترم عدیل راجا صاحب۔ خط چیف جسٹس کو موصول نہیں ہوا تھا ،، میں امریکہ گیا تھا اس دنیا سے نہیں۔۔ ٹیلی فون اگر آپ یا ارشد بھائی کرتے تو اس خط کو پہنچانے کا بہتر انتظام ہو جاتا جو انتظام آپ نے کیا تھا۔حسن ایوب کی وضاحت پر عدیل راجا مزید آگ بگولہ ہو گئے اور ٹوئٹ کیا کہ “آپ نہ صرف ہوا میں بات کر رہے ہیں بلکہ جھوٹا پراپگنڈا کر رہے ہیں۔۔ مہربانی کر کے کسی کی کالک اپنے منہ پر نہ ملیں۔۔ شکریہ! اور اس مسئلے پر چپ رہنا بہتر ہے آپکا۔۔عدیل راجا کے سخت ردعمل پر حسن ایوب نے جھوٹ اور جھوٹوں پر لعنت بھیج دی اور لکھا “اللہ کی لعنت پڑے جھوٹے پر اور جھوٹا الزام لگانے والے پر ۔اس پر ادارے کے سینئر وائس پریزیڈنٹ اور ڈائریکٹر نیوز عماد یوسف بھی عدیل راجا کے مؤقف کی حمایت میں میدان کود پڑے اور اپنے رپورٹر حسن ایوب کی لعنت والی ٹوئٹ کو کوٹ کرتے ہوئے لکھا “اللہ کی لعنت پڑے فرمائشی بیانیہ بنانےوالوں پر۔انشاللہ۔۔ٹوئٹر پر کئی صارفین نے دونوں صحافیوں کے حق اور مخالفت میں ٹوئٹ کرتے رہے۔
اے آروائی نیوزکے صحافی سوشل میڈیا پر آمنے سامنے۔۔
Facebook Comments