خصوصی رپورٹ۔۔
وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ سابق دور میں پی ٹی وی پر کرکٹ رائٹس کے نام پر ڈاکہ ڈالا گیا، اے آر وائے کو کرکٹ حقوق دلوانے کے لئے سنگین خلاف ورزیاں ہوئیں، عمران خان کے کہنے پر سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پی ٹی وی کو نقصان پہنچانے کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کیا۔انہوں نے وہ جرم کیا ہے جس کی معافی نہیں ملے گی، پی ٹی وی پر حملہ کرنے والوں نے حکومت میں آ کر پی ٹی وی کا معاشی قتل کیا، سوچی سمجھی سازش کے تحت پی ٹی وی کے حقوق غیر قانونی طور پر کسی دوسرے چینل کو دیئے گئے، جب ʼʼاے سپورٹسʼʼکو کرکٹ دکھانے کے حقوق دیئے گئے تو اس وقت اس کے پاس لائسنس ہی نہیں تھا، غیر قانونی ڈیل کے نتیجے میں پی ٹی وی کو اب تک 52 کروڑ کا نقصان ہو چکا ہے۔پی ٹی وی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے نتائج آج پی ٹی وی بھگت رہا ہے، پی ٹی وی سپورٹس واحد سکرین ہے جس سے پی ٹی وی ریونیو حاصل کرتا ہے لیکن پی ٹی آئی کے دور میں اس ریونیو کو خسارے میں تبدیل کیا گیا، قومی مفاد پر سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے، پی ٹی وی کو اس کا حق واپس دلا کر رہیں گے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی وی قومی نشریاتی ادارہ اور ریاست کی آواز ہے، یہ پاکستان کی قومی شناخت ہے، اسی ادارے کی وجہ سے باقی براڈ کاسٹرز نے بھی جنم لیا۔انہوں نے کہا کہ آج صحافت مکمل طور پر آزاد ہے، میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی سپورٹس واحد سکرین ہے جس سے پی ٹی وی ریونیو حاصل کرتا ہے، اس کے علاوہ پاکستان کے عوام 35 روپے لائسنس فیس کی مد میں پی ٹی وی کو ادا کرتے ہیں، ان ذرائع آمدن سے پی ٹی وی اپنے اخراجات پورے کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ 2014ء کے دھرنے میں عمران خان نے اس ادارے پر حملہ کروایا اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیں۔ عمران خان نے اس وقت اپنی ٹیم اور اپنے کارکنوں کو شاباش دی، اس کے بعد جب 2018ء میں پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو انہوں نے اس ادارے کا معاشی قتل شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے پہلے کہا کہ پی ٹی وی اور ریڈیو کو بی بی سی ماڈل پر سمارٹ نیشنل براڈ کاسٹر بنایا جائے گا لیکن انہوں نے ریڈیو اور پی ٹی وی کی عمارتوں کو نیلام کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ اپریل 2022ء میں جب ہماری حکومت آئی تو معلوم ہوا کہ پی ٹی وی سپورٹس کے کرکٹ رائٹس کے لئے گروپ ایم اور اے آر وائے کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے، اس پر ہم نے اپریل 2022ء میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قائم کی جس کی دو ماہ تک تحقیقات جاری رہیں۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس آسان راستہ تھا کہ پہلے روز ہی فوری طور پر اس موضوع پر پریس ٹاک کر کے الزام عائد کر دیا جاتا اور ان لوگوں کو جیلوں میں ڈال کر بھول جاتے۔انہوں نے کہا کہ سابق دور میں پی ٹی وی کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے نتائج آج پی ٹی وی بھگت رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی اور ایم گروپ، اے آر وائے کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوئے جس کے تحت پی ٹی وی سپورٹس نے کرکٹ رائٹس کو ایکوائر کر کے وہ رائٹس اے آر وائے کو دینے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 16 ستمبر 2021ء تک یہ رائٹس پی ٹی وی سپورٹس چینل کے پاس تھے، پی ٹی وی سپورٹس اسی ذریعے سے ریونیو حاصل کرتا ہے اور عوام کو کرکٹ دکھاتا ہے، 16 ستمبر 2021ء کو معاہدے پر دستخط کر کے ان حقوق پر سمجھوتہ کیا گیا، اس معاہدے کے ذریعے پی ٹی وی سپورٹس کے کرکٹ رائٹس پر ڈاکہ ڈالا گیا۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی وی کے کرکٹ رائٹس کسی دوسرے چینل کو دینے کا باقاعدہ منصوبہ تیار کیا گیا۔ پی ٹی وی سپورٹس نے کہا کہ ہمارے پاس رائٹس ایکوائر کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں، ہمیں اس منصوبے میں اظہار دلچسپی طلب کرنا چاہئے، پی ٹی وی کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ اس کام کے لئے پیسے نہیں تھے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی وہ ادارہ ہے جس کا 100 فیصد شیئر حکومت پاکستان اون کرتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سابق دور میں پی ٹی وی سپورٹس کو تباہ کیا گیا۔ سابق حکومت پی ٹی وی کو نیلام کرنے جا رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اظہار دلچسپی کیلئے اشتہار ایک اخبار میں 10 اگست 2021ء کو شائع ہوا، اس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے حوالے سے چیزیں شامل کی گئیں، تین دن کے بعد انہیں خیال آیا کہ اظہار دلچسپی کے اس منصوبہ پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوگا تو اس کے ذریعے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لئے بڈز طلب کی گئیں۔تین دن کے بعد 13 اگست کو منگوائی گئی بڈز کو ریوائز کرنے کے لئے addendum شائع کیا گیا، اس کے اندر بولیاں وصول کرنے کی تاریخ کو 27 اگست کر دیا گیا، ایک addendum میں کہا گیا کہ ہمیں سیٹلائٹ سپیشلائزڈ سپورٹس براڈ کاسٹر چاہئے، اس کے اندر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پی ٹی وی سپورٹس کو ایس ڈی سے ایچ ڈی کرنے کے لئے انفراسٹرکچرل معاونت بھی چاہئے۔
ایک ترمیم میں کہا جاتا ہے کہ کیبل اور سیٹلائٹ براڈ کاسٹر کی ضرورت ہے کیونکہ ٹین سپورٹس اور آئی سی سی رائٹس کے لئے پری ریکوزیشن کے وقت اظہار دلچسپی کے نوٹس میں بڈز منگواتے وقت یہ شرط نہیں ڈالی گئی تھی۔بعد ازاں ٹرمز آف ریفرنسز جاری کئے گئے جو اظہار دلچسپی کے نوٹس سے مختلف تھے، 27 اگست کو بڈز آئیں، 28 اگست 2021ء کو یہ بولیاں کھول دی گئیں، چار کمپنیوں گروپ ایم ۔ اے آر وائے، بلٹز ایڈورٹائزر، ٹاور سپورٹس اور ٹریڈ کرونیکل کی بولیاں موصول ہوئیں۔پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے لئے ان چاروں کمپنیوں کی بولیوں کی مارکنگ کی گئی، ٹریڈ کرونیکل کو ٹیکنیکل بنیادوں پر ڈس کوالیفائی کردیا گیا، اس کے بعد تین کمپنیاں گروپ ایم ۔ اے آر وائی، بلٹز اور ٹاور سپورٹس رہ گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اظہار دلچسپی کے نوٹس کو ہر اسٹیج پر بدلا گیا۔انہوں نے بتایا کہ 28 اگست 2021ء کو جائزہ کمیٹی نے مارکنگ کی جس میں بلٹز ایڈورٹائزرز کو 300 میں سے 182 پوائنٹس، گروپ ایم ۔ اے آر وائے کو 167 پوائنٹس اور ٹاور سپورٹس کو 131 پوائنٹس دیئے گئے، جائزہ کمیٹی نے مارکنگ پر دستخط کئے اور لیٹر جاری کئے، اس لیٹر پر ڈائریکٹر سپورٹس، ڈائریکٹر فنانس، ڈائریکٹر انجینئرنگ، چیف کمرشل آفیسر اور ڈائریکٹر ایڈمن اینڈ پرسانل کے دستخط موجود تھے۔
خط میں کہا گیا کہ بلٹز ایڈورٹائزر نے سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کئے ہیں اور ایک بہتر پارٹنر شپ ڈیل دی ہے تاہم کمپنی کے ساتھ معاہدے سے پہلے کچھ چیزیں طے کی جائیں گی۔اس کے بعد 28 اگست کو ہی ایم ڈی پی ٹی وی کو ایک نوٹ جاتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ کمیٹی کہہ رہی ہے کہ ہم نے ان دونوں کمپنیوں کو منتخب کیا ہے، ہم ان کے ساتھ مزید بات چیت میں جانا چاہتے ہیں جبکہ کمیٹی نے ایسا نہیں کہا تھا، کمیٹی نے بلٹز ایڈورٹائز کو زیادہ نمبروں سے منتخب ہونے کا لیٹر جاری کیا تھا۔بلٹز ایڈورٹائزر پہلے بھی ایک منصوبے میں پی ٹی وی کے ساتھ اشتراک کر چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یکم ستمبر 2021ء کو دوبارہ بات چیت کا آغاز کیا گیا جس میں ناکام کمپنی کو کامیاب کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، اس میں نمبر بدلے گئے، ٹرمز بدلی گئیں، ری مارکنگ کی گئی، اپنی من پسند کمپنی کو کامیاب کرنے کے لئے کہا گیا کہ اس پر پیپرا رولز لاگو نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے منتخب کمپنی کے ساتھ بات چیت کرنے کا کہا لیکن ری مارکنگ کر کے من پسند کمپنی کو منتخب کیا گیا، اپنی من پسند کمپنی کو اضافی نمبر دینے کے لئے ری مارکنگ میں مجموعی نمبروں کو بڑھا کر 350 کر دیا گی۔بولی میں کامیاب کمپنی کو چھوڑ کر من پسند کمپنی کو نوازا گیا، دوبارہ بات چیت میں بلٹز ایڈورٹائزر کے لئے الگ معیار اور ایم گروپ کے لئے الگ معیار مقرر کیا گیا، 6 ستمبر کو مارکنگ کے مجموعی نمبروں میں 50 نمبر بڑھا دیئے گئے اور سیٹلائٹ براڈ کاسٹر ہونا سب سے زیادہ ضروری معیار مقرر کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اے آر وائی کو پہلے 300 میں سے 167 نمبر دیئے گئے تھے، اس کے بعد اسی جائزہ کمیٹی نے 350 نمبروں میں سے 250 نمبر دے دیئے، بلٹز ایڈورٹائزر کے بارے میں کمیٹی نے کہا کہ یہ بہتر ڈیل ہے اور زیادہ نمبر لئے ہیں اس کو اسی کمیٹی نے 350 میں سے 185.6 نمبر دیئے، اس طرح ناکام ہونے والی کمپنی اے آر وائے کے لئے مجموعی نمبروں میں 50 نمبروں کا اضافہ کیا گیا اور ان 50 نمبروں میں سے اے آر وائے کو 83 نمبر دے دیئے گئے جبکہ کامیاب کمپنی بلٹز ایڈورٹائزر کے صرف 3.6 نمبر بڑھائے گئے۔انہوں نے کہا کہ دوبارہ بات چیت میں تیسری کمپنی ٹاور سپورٹس سے کسی نے بات چیت تک نہیں کی، ٹاور سپورٹس مسنگ کمپنی بن گئی، دوبارہ مارکنگ میں اس کمپنی کو شامل ہی نہیں کیا گیا۔ چھ ستمبر کو فیصلہ کیاگیا کہ ایم گروپ اے آر وائی کے ساتھ تین سال کا معاہدہ کرنا ہے، 10 اگست کو اظہار دلچسپی کا نوٹس شائع ہوا اس کے معیارات میں سیٹلائٹ براڈ کاسٹر کی شرط ڈالی جاتی ہے، اس پورے پراسیس کے بعد 16 ستمبر کو اس معاہدے پر دستخط ہوتا ہے، اس معاہدے سے دو دن پہلے 14 ستمبر کو پیمرا اے سپورٹس کو لائسنس جاری کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 14 ستمبر تک اے سپورٹس کے پاس براڈ کاسٹنگ لائسنس نہیں تھا۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ من پسند کمپنی کے لئے منصوبہ تیار کیا گیا، پیپر تیار کئے گئے، اس کو کامیاب کرنے کے لئے 50 میں سے 83 نمبر دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ اظہار دلچسپی کے نوٹس میں شرط تھی کہ سیٹلائٹ براڈ کاسٹر ہونا چاہئے، پیمرا میں دو مہینے کی ٹیسٹ ٹرانسمیشن لازمی ہوتی ہے لیکن اے سپورٹس کو دو دن کے بعد لائسنس جاری کر دیا گیا۔
وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس منصوبے کے تحت اے آر وائے کو پی ٹی وی کا مد مقابل چینل بنایا گیا، 14 ستمبر کو پیمرا سے اسے لائسنس جاری کروایا گیا اور اس کے بعد 16 ستمبر کو معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے یہ کہا گیا کہ ایم گروپ پی ٹی وی کا انفراسٹرکچر ٹھیک کرے گا جس پر ایم گروپ نے صاف کہہ دیا کہ ہمارے پاس کوئی مہارت نہیں ہے، ہم یہ نہیں کر سکتے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی سپورٹس کو ایچ ڈی کرنے کے لئے بولیاں طلب کی گئیں جس کے لئے تین کمپنیوں کی بولیاں موصول ہوئیں، ان تینوں کمپنیوں کو نظر انداز کر کے انفنٹی نامی کمپنی کو نامزد کر دیا گیا کہ یہ ایم گروپ اور اے آر وائے کو آلات دے گی، وہ اس سے آلات خرید کر پی ٹی وی کو دے گا جبکہ انفنٹی کمپنی بولی کے پراسیس میں شامل ہی نہیں تھی۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی نے 49 آئٹمز پر مبنی لسٹ بھیجی کہ ہمیں ایچ ڈی پر جانے کے لئے یہ آلات درکار ہوں گے جس پر کمپنی نے 19 آئٹمز فراہم کرنے کا کہا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی آلات آئے وہ کرائے کے تھے، کرائے کے کیمرے لگائے گئے۔انہوں نے کہا کہ ان کرائے کے کیمروں پر انفراسٹرکچرل اپ گریڈیشن آج تک جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو آلات فراہم کئے گئے وہ جعلی ہیں، ان کو پی ٹی وی نے آفیشل طور پر وصول ہی نہیں کیا کیونکہ وہ اس لسٹ کے مطابق نہیں جو پی ٹی وی کی انجینئرنگ کمیٹی نے فراہم کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 2021ء سے 2023ء تک کرکٹ کے ایونٹس، سپورٹس ایونٹس، انٹرنیشنل ایونٹس کے تمام رائٹس گروپ ایم اور اے آر وائے کو بغیر مانگے دیئے گئے جو کبھی اظہار دلچسپی کا حصہ بھی نہیں تھے اور نہ ہی کبھی انہوں نے مانگے تھے۔انہوں نے کہا کہ ایک ایونٹ میں پی ٹی وی کو اس وقت تک 52 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پی ٹی وی کی ریونیو جنریشن تقریباً دو ارب روپے متوقع تھی لیکن چار سال کا کنٹریکٹ من پسند کمپنی کے ساتھ کر کے اسے نقصان پہنچایا گیا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 2014ء میں پی ٹی وی پر حملے کا منصوبہ بنایا، جب حکومت میں آئی تو اس نے پی ٹی وی کا معاشی قتل کیا، پی ٹی وی کی معاشی شہ رگ پی ٹی وی سپورٹس ہے، اس پر اے آر وائے کو کھڑا کر کے پی ٹی وی کو معاشی نقصان پہنچایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس ڈیل کے خلاف بڈرز کورٹ میں چلے گئے، اس کو پروٹیکٹ کرنے کے لئے سابق وفاقی وزیر نے اپنے وکلاء کو استعمال کیا، پی ٹی وی پر معاشی ڈاکہ ڈالا گیا پھر اسے پروٹیکٹ کرنے کے لئے اپنے وکیل لگا دیئے گئے۔ انہوں نے کہاکہ یہ کیس عدالت میں ہے، اس کیس میں فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ اور تمام ریکارڈ بھی جمع کروایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کو بھی انکوائری کا کہا گیا، اس پر انکوائری شروع ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سابق دور میں عمران خان کے کہنے پر فواد چوہدری نے پی ٹی وی کو نقصان پہنچانے میں سہولت کار کا کردار دا کیا، نیشنل براڈ کاسٹر پر ڈاکہ ڈال کر پی ٹی وی کے ریونیو کو نقصان پہنچایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اس ڈیل کو ختم کرنے کے لئے شو کاز دے دیا گیا ہے، اس جرم میں شریک ایک ایک شخص کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کو یہ رائٹس دوبارہ دلوائے جائیں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ 2018ء سے 2022ء تک عمران خان نے میڈیا کی زبان بندی کی کیونکہ وہ اپنے کرتوت عوام کے سامنے نہیں آنے دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نجی ٹی وی چینل اے آر وائی کی سکرین کو ریاست مخالف بیانیہ کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے، اربوں روپے جس جیب میں گئے ہوں، وہ اس کے عوض سکرین فراہم کر رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی کا معاشی قتل کر کے ریاست مخالف منظم سکرین کو فائدہ پہنچایا گیا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس معاہدے میں منافع کی شرح بھی بدلی گئی جو پہلے 60/40 تھا جسے تبدیل کر کے ففٹی ففٹی کر دیا گیا۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ انفنٹی کمپنی بولی کے عمل میں شامل ہی نہیں تھی، یہ کس کی کمپنی ہے اس بارے میں انکوائری ہو رہی ہے، ہم الزام عائد نہیں کرنا چاہتے۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں، جو ریکارڈ جمع کروایا تھا اس کا جائزہ لیا جا رہا ہے، ان تمام لوگوں کی انکوائری شروع ہو چکی ہے جو اس پراسیس میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، جرم کے مطابق سزا ملے گی۔ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ عدالت میں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اور فراہم کئے گئے ثبوتوں پر سماعت جاری ہے، یہ ایک غیر قانونی ڈیل ہے، اس کے قانونی ہونے کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈیل قومی مفاد پر سمجھوتہ کرتے ہوئے قومی ادارے کو نقصان پہنچا کر دی گئی۔ اس کو ختم کرنے کا اختیار ہے۔ میں اس ادارے کی وزیر ہونے کے ناطے اس کو ختم کرنے کا حق رکھتی ہوں۔انشاء اللہ پی ٹی وی کو یہ حقوق واپس دلوائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مشورہ دیا گیا کہ سرکاری ٹی وی کے متعلقہ افسر وں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے میں نے انکار کر دیا ،اب ایف آئی اے انکوائری کر رہا ہے جو لوگ بھی ڈاکے میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ سرکاری ٹی وی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو من پسند فیصلوں کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہم نے دو ماہ تک تفصیلی انکوائری کی ہے اس کے بعد یہ کیس ایف آئی اے کو بھیجا گیا ہے اور متعلقہ افسروں کو شوکاذ نوٹس جاری کئے گئے ہیں ، وزیر اطلاعات نے کہا کہ قومی اداروں میں جس طرح لوٹ مار کی گئی ،وہ سب قوم کے سامنے پیش کریں گے ہم نے تمام دستایزات حاصل کر لی ہیں اور یہ سب قوم کے سامنے پیش کریں گے ۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ 2018 میں حکومت میں آئے تو 50 لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریوں جیسی بڑی بڑی باتیں کیں، اسی طرح کہا کہ ہم پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کو بی بی سی کے ماڈل پر ایک اسمارٹ اور مؤثر نشریاتی ادارہ بنائیں گے، اس کے بعد ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی کی عمارتوں کو نیلام کرنے کا اعلان ہوا تاکہ اس سے ریونیو پیدا کیا جاسکے۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ میں نے 22اپریل کو آتے ہی پی ٹی وی کے معاملے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی قائم کی۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی وی اسپورٹس کرکٹ کے حقوق حاصل کرتا ہے اور پھر اس کے پاس ان نشریاتی حقوق دوسروں کو دینے کا بھی حق ہے، 16 ستمبر 2021 سے قبل ہمیشہ سے یہ ہوتا رہا ہے کہ یہ حقوق پاکستان ٹیلی ویژن کے پاس تھے۔ہمیشہ سے پی ٹی وی یہ حقوق حاصل کرتا ہے اور پھر آگے تقسیم کرتا ہے، اسی سے پی ٹی وی ریونیو بھی حاصل کرتا تھا اور پاکستان کے عوام کو کرکٹ بھی دکھاتا تھا لیکن 16 تاریخ کو ایک معاہدہ کیا گیا جس میں ان دونوں حقوق پر سمجھوتہ کیا گیا۔گزشتہ حکومت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے الزام عائد کیا کہ پی ٹی وی پر یہ ڈاکا ڈالنے کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا، یہ معاملہ پی ٹی وی اسپورٹس بورڈ کے پاس آیا کہ ہمارے پاس حقوق لینے اور اسے تقسیم کرنے کے پیسے نہیں ہیں کیونکہ یہ پیسے موجود نہیں ہیں تو ہمیں اظہار دلچسپی(expression of interest) میں جانا چاہیے کیونکہ ہمارے پاس دونوں چیزوں کے لیے پیسے نہیں اور پاکستان ٹیلی ویژن اسپورٹس اور پی ٹی وی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ اس عمل کے لیے پی ٹی وی نے کہا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ 10 اگست کو پی ٹی وی بورڈ نے کہا کہ ہمیں اظہار دلچسپی کا نوٹس جاری کرنا ہے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ایک کمپنی ہے جس سے ہم نے پارٹنرشپ کا تجربہ کیا ہے اور اس سے پی ٹی وی کو منافع ہوتا ہے تو ہم اس کمپنی کے ساتھ دوبارہ جانا چاہتے ہیں، جس کے بعد اظہار دلچسپی کا نوٹس 10 اگست کو ایک اخبار میں چھپتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس نوٹس میں بتایا جاتا ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ہم نشریاتی حقوق کا حصول، مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس معاہدے سے پی ٹی وی کا قتل، پی ٹی وی پر ڈاکا ہے اور اس کی معاشی نیلامی کر دی اور اس چینل کو پی ٹی وی کے مقابلے پر کھڑا کیا گیا۔وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہ معاہدہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس سے اتنا منافع ہو گا کہ پی ٹی وی بی بی سی بن جائے گا، ابھی تک صرف ایک ایونٹ ہوا ہے جس میں نشریاتی حقوق لینے اور اس کی تقسیم کی مد میں پی ٹی وی 52کروڑ نقصان میں جا چکا ہے، نہ وہ ایس ڈی سے ایچ ڈی ہوا اور اس کو سب سے پہلے مستقبل میں بولی لگانے کا حق بھی دے دیا گیا اور اس کا فیصلہ بھی اے اسپورٹس کرے گا کہ کس کو حقوق دینے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کا فائدہ اے آر وائی اور اے اسپورٹس جبکہ خرچہ ہم اٹھا رہے ہیں تاہم ہم اس کو ٹھیک کریں گے، یہ حقوق واپس لیں گے اور ذمہ داران کو سزا ملے گی، قومی آمدن اور اثاثوں پر یہ سمجھوتہ نہیں کریں گے۔وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہمارے لیے آسان راستہ تھا الزام لگاتے اور ان کو جیلوں میں ڈال کر بھول جاتے۔ پی ٹی وی پر ڈاکہ ڈالنے والوں کیخلاف کارروائی ہو گی اور جرم کے مطابق سزا دیں گے۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں کہا گیا محکمہ جاتی سزائیں دے دیں لیکن ڈاکے کی ایسی سزائیں نہیں ہوتیں۔ ایف آئی اے کو کوائف دے دیئے گئے ہیں کیونکہ یہ غیر قانونی ڈیل ہے اور مکمل تفصیل ہم پیر کو جمع کرا دیں گے۔ بطور چیف ایگزیکٹو غیر قانونی ڈیل کو ختم کرنے کا حق رکھتی ہوں۔دریں اثناء اے آر وائے ٹی وی چینل نے تمام الزامات کی تردید کی اور کہا کہ کچھ بھی غیر قانونی نہیں کیا گیا ہے ۔۔(خصوصی رپورٹ)