تحریر: حسن علی امام
ان دنوں ہمارے چاروں طرف اے آئی یعنی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا شور ہے۔ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ حضرت انسان نے کمپیوٹر کو اتنی ترقی دے دی ہے کہ اب وہ خود ہماری مدد کرنے پر تُل گیا ہے ۔ لیکن یہ بس خیال ہی ہے ۔ خدا گواہ ہے ہمیں تو بےچارے کمپیوٹر پر ترس ہی آتا ہے ۔ اسے اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ کس کے ہتھے چڑھ گیا ہے ۔ ابھی تو اس غریب کو یہ لگ رہا ہے کہ اسے بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مل گئی ہے لہذا وہ لوگوں کے کام آئے گا ۔ مگر وہ دن دور نہیں کہ اسے بھی لگ پتہ جائے گا کہ اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے ۔ میاں یہ انسان ہے ۔ جب اپنی پر آجائے تو کیا کمپیوٹر کیا فلسفہ کیا سائنس ۔ سب کو ایک ہی لکڑی سے ہانکتا ہے ۔ ذرا سوچیئے تو سہی ۔ تانبے ۔لوہے ۔اور پلاسٹک سے بنے جادوئی ڈبے کی کیا مجال ہے کہ ہمارے آگے پر مارے۔ ابھی تو بہت پھڑپھڑا رہا ہے ناں ۔ کچھ دن رک جائیں ۔ اسے پتہ پڑ جائے گا کہ واسطہ کس سے پڑا ہے ۔ یہ کمپیوٹر خود چلا چلا کر کہے گا بھائی معاف کر دے غلطی ہوگئی ۔ تجھے سمجھانے چلا تھا ۔
جن لوگوں کو اپنی پڑھائی لکھائی پر زعم ہوگیا ہے وہ یہی سمجھیں گے کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ابھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو ذرا سنبھل تو لینے دیں ۔ یہ خود ایسا نظام وضع کر لے گی ۔ ایسے فلٹر لگا دے گی کہ کوئی لاکھ چاہے تب بھی اسے دھوکا نہیں دے سکے گا ۔ مگر ہم بتا دیں کہ آپ انسان کو سمجھیں یا نہ سمجھیں یہ مصنوعی ذہانت سمجھ جائےگی اورجیسے ہی کوئی آدمی اپنا کمپیوٹر کھولے گا ۔ کمپیوٹر مصنوعی ذہانت سے ایک گُڈے کی شکل میں ہاتھ جوڑے نمودار ہوگا اور کہے گا مائی باپ ۔ کوئی ایسا گُل نہ کھلا دینا کہ مجھے جوتے پڑیں ۔ بھائی سمجھ کر بول رہا ہوں ۔ ہاتھ ہلکا رکھنا ۔کیوں کہ کمپیوٹر کو کچھ ہی عرصے میں اندازہ ہوجائے گا کہ اس مخلوق سے پنگا لینا کسی صورت ٹھیک نہیں ۔ ابھی کمپیوٹر صحیح سے بنا نہیں تھا اس نے وائرس پہلے بنا لیا تھا ۔ واٹس ایپ والوں نے کہا کہ یہاں کی بات چیت پر انکرپشن لگا دی ہے، یہ محفوظ ہے ۔مگرپیگاسس اس میں بھی گھس گیا ۔کوئی سافٹ ویئر بنا لیں ۔ کوئی ایپلی کیشن بنا لیں ۔ لاکھ اینٹی وائرس ڈال لیں ۔ جو چاہے کرلیں ۔ آگے ایک ہیکر کھڑا مسکرا رہا ہوتا ہے کہ ۔سب کرلیا ناں۔اب دیکھو میں کیا کرتا ہوں ۔
مہنگے سے مہنگا اورمحفوظ سے محفوظ سافٹ ویئر خرید لیں ۔ آخر میں افسوس ہی ہوتا ہے ۔ کہ یار بلا وجہ پیسے دیئے،اچھا خاصا پائیرٹ مل جاتا ہے ۔ چار بٹن دبائیں ہر چیز کی نقل بمطابق اصل موجود ہے ۔ ایک ذرا ڈھونڈنے کی دیر ہے ایک سے ایک ویب سائٹ حاضر ہے جو زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ کمپیوٹر کی ہر مشکل آسان ہوگی ۔ محبوب سافٹ ویئر آپ کے قدموں میں ۔ ہارڈ ڈرائیو کے پوشیدہ امراض کا کامیاب علاج ۔ قزاقوں کے ساحلِ مراد سے رابطہ کریں ۔ قزاقوں کا ساحلِ مراد دراصل ہم نے ترجمہ کیا ہے ۔ اصل ویب سائٹ کا نام دے نہیں سکتے ۔ یہ ایک ایسا کھلا راز ہے جسے جانتے سب ہیں مگر بتاتا کوئی نہیں ہے ۔ سب کو پتہ ہے کس ویب سائٹ کی بات ہورہی ہے مگر تھوڑی سی اخلاقی اور بہت زیادہ اداراجاتی مجبوری ہے کہ لکھ نہیں سکتے ۔
بعض چوروں کو تالے سے ضد ہوجاتی ہے ۔ وہ تالے بھی کھول دیتے ہیں کہ جہاں چوری بھی نہیں کرنی ہوتی ۔ انہیں ہر تالا بس تاو دلا دیتا ہے ۔ ہر تالے پر اٹک جاتے ہیں ۔ تالا برداشت ہی نہیں ہوتا ۔ یہاں تالے کے قصے سے مراد وہ تالا چابی کا مشہور اشتہار نہیں ہے بلکہ ٹیکنالوجی کی بات ہے ۔ کمپیوٹر کی دنیا میں ادھر کوئی چیز داخل ہوتی ہےتو ادھر اس کا توڑآجاتا ہے ۔اس آرٹی فیشل انٹیلی جنس کا بھی توڑ پہلے سے موجود ہے ۔مصنوعی ذہانت کا توڑ وہ قدرتی چالاکی ہے جو انسان کی سرشت میں گندھی ہوئی ہے۔ کمپیوٹر کی مصنوعی ذہانت اور انسان کی قدرتی چالاکی کا موازنہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی ہے ۔ حُسن دولت اور عقل مندی کی حفاظت نہ کی جائےتو یہ اپنے سے زیادہ دوسروں کے کام آنے والی چیزی بن جاتی ہیں ۔ کیف نے درست کہا تھا کہ
اچھی صورت بھی کیا بری شے ہے
جس نے ڈالی بری نظر ڈالی
آرٹی فیشل انٹیلی جنس اچھی چیز ہے بری نہیں ہے ۔ مگر اُن تاڑنےوالوں کا کیا کریں جو قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ جن کی آنکھوں میں ایکس رے مشین لگی ہے۔ انہیں بس کوئی موقع ملنا چاہئے ۔ یہ اپنی بوٹی کےلیے اگلے کا بکرا حلال کرنے میں دیر نہیں لگاتے ۔ انہیں جہاں جہاں یہ اندازہ ہوتاہےکہ یہ ٹیکنالوجی ان کے کام آسکتی ہے ۔ یہ وہاں گولہ داغ دیتے ہیں ۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس سے فائدہ ہوگا یا نقصان ۔ اور اگر ایک نے گولہ داغ ہی دیا تو پھر ایک کے بعد ایک گولہ آئے گا۔ بھیڑ چال ہے ۔ جو ایک کرے گا وہی دوسرا کرے گا ۔ اچھا بُرا اُن کی جانے بلا ۔ گولے داغ داغ کر ٹیکنالوجی کا دامن داغ دار کر دیا ہے ۔اگرچہ ٹیکنالوجی کی اس عفیفہ کے لچھن دیکھ کر شروع میں ہی اندازہو گیا تھاکہ مقامات آہ و فغاں جلد ہی آنے والے ہیں لیکن جس انداز سے اسے بھنبھوڑا جا رہا ہے اس پر حیرت ہے ۔ہر چندکہ مصنوعی ذہانت کی یہ ٹیکنالوجی خود بہت دریدہ دہن ہے ۔ بڑھ بڑھ کر جواب دیتی ہے ۔ایک ایک کی چار چار لگاتی ہے مگر کم بخت کسی کی نوخیزی کا ہی لحاظ کر لیتے ۔ دیدوں کا پانی ہی مر گیا ہے۔
آں جہانی اسٹیفن ہاکنگ کہہ گئےتھے کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس انسانوں کو ختم کر دے گی ۔ زندہ ہوتے تو ہم بتاتے کہ اب بھی وقت ہے بچالو اسے ۔ ورنہ انسان نہیں چھوڑیں گے ۔ پتہ نہیں وہ کیا جواب دیتے ۔ اور کیسے دیتے ۔ سنا ہے کہ وہ آنکھوں یا پلکوں سے لکھتے تھے ۔ ان کے چشمہ میں کوئی ایسی ٹیکنالوجی تھی جو ان کی آنکھ کا اشارہ سمجھ جاتی تھی ۔ اچھا ہوا ان کے مرنے کے بعد وہ چشمہ عام نہیں ہوا ۔ ہوجاتا اور ہم شہر میں گھومتے ہوئے وہ لگا لیتے ۔ ایک قیامت آجاتی ۔ جو کچھ ان آنکھوں کے اشارے وہ درج کرتا ۔اس پر مقدمے ہی درج ہوتے ۔ خیر بتانا یہ مقصود ہے کہ انسانوں کو آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے کوئی خطرہ نہیں بلکہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو انسانوں سے خطرہ ہے ۔
یہ خطرہ کوئی معمولی خطرہ نہیں ۔ ایک تو وہ چیزیں ہیں جو انسان اس آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے کرائے گامگر بہت سی وہ چیزیں ہیں جو اس غریب کے کھاتے میں ڈال دی جائیں گی ۔ اور اسے پتہ بھی نہیں چلے گا ۔ برصغیر میں اس ٹیکنالوجی پر سب سے زیادہ بوجھ تو رشتے کے لیے ہاں کرانے کا ڈالا جائے گا۔ پتہ چلا کہ پڑوسی ملک میں کسی خاتون نے گھر والوں کو بتایا کہ انہوں نے رشتے کی ویب سائٹ کو آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے منسلک کر دیا ۔اور کمپیوٹر نے پورا ملک چھان کر سب سے معقول رشتہ ڈھونڈ نکالا ۔ لڑکے کا نام بھی دیا ۔ پتہ بھی دیا ۔ ماں باپ کا فون نمبر بھی نکال کر دیا۔ بس حسن اتقاق یہ ہوا کہ لڑکا وہی ہے جو ان کےساتھ ان کی کلاس میں پڑھتا ہے ۔ لیجئے صاحب !دیکھ لی انٹیلی جنس ۔کون ذہین ثابت ہوا ؟ فیاض علی فیاض کا شعر یاد آگیا
بزدلی کا نام رکھ لیں مصلحت
جیسے چالاکی ذہانت ہوگئی
وہ دن دور نہیں کہ پڑوسن بیگم صاحبہ کے کان بھر کے جائے گی اور وہ اپنے شوہر کے سر ہوں گی ۔ وہ نادار جھنجلا کر پوچھے گا کہ میرے خلاف یہ باتیں تمہیں کس نے بتائیں؟ اور بیگم صاحبہ کندھے اچکا کر کہیں گی ۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس ۔ اور کبھی شوہر بھی کسی بات پر سمجھ جائے گا کہ ہو نہ ہو اسے بڑی پھپھو نے سکھایا ہے ۔ وہ بھی بڑے طمطراق سے کہے گا ۔ مجھے آرٹی فیشل انٹیلی جنس نے سب بتادیا ہے ۔ کل پھپھو تم سے یہی باتیں کر رہی تھیں ۔ جہاں بات کمپیوٹر کی آجائے وہاں ماننی تو پڑے گی ۔ کیوں کہ کمپیوٹر تو غلطی کرتا نہیں ۔ لیکن اس دفعہ شاید کمپیوٹر غلطی کر گیاہے ۔ لوگوں کو یہ سمجھانے کی غلطی کر گیا ہے کہ وہ غلطی نہیں کرتا ۔ لہذا اب ہر اچھا برا اسی کے کھاتے میں ڈالا جائے گا کہ بھگت ۔
اے آئی یا آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو وہ بھی بھگتنا پڑےگا جو اس نے کیا ہوگا اور وہ بھی جو اس نے کیا ہی نہیں ہوگا ۔شاید عام لوگوں کو اندازہ نہ ہو مگر اے آئی ایسے الزام بھگت رہی ہے جو سرے سےاس پر بنتے ہی نہیں ۔ اس مظلوم ٹیکنالوجی نے ابھی سے وہ قرض اتارنا شروع کردیئے ہیں جو واجب بھی نہیں ۔ مثال کے طورپرابھی چند دنوں میں شور مچا کہ بھارت کے ایک ٹی وی چینل نے پہلی اے آئی اینکرمتعارف کرادی۔ ابھی یہ شور تھما نہیں تھا کہ آواز آئی بھارت کے دو اور ٹی وی چینلوں نے اے آئی اینکر متعارف کرا دیئے ۔ پاکستانی نیوز چینلوں پر یہ اطلاع ایٹم بم کی طرح گری ۔ اور ادھر فوری جوابی حملے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ اور کوئی راستہ بھی نہیں تھا ۔ دشمن نے دروازے پر دستک دی تھی ۔ دوستوں کے پیغام تو لوٹائے جاسکتے ہیں مگر دشمنوں کی چتاؤنی خالی کیسے جانےدیں ۔ اور ویسے بھی چاغی کے ایٹمی دھماکوں کے بعد سے ہم پاکستانیوں کا ایک مزاج بن گیا ہے جسے فیض نے کہا تھا
واپس نہیں پھیرا کوئی فرمان جنوں کا
تنہا نہیں لوٹی کبھی آواز جرس کی
اِدھر سے حملے کی تیاری مکمل ہوئی اور آناً فاناً پاکستانی کے ایک نیوز چینل نے آئے آئی اینکر متعارف کرا دی ۔ بس پھر کیا تھا ۔ دشمن پر تابڑ توڑ حملے شروع ہوگئے ۔ دوسرے دن دوسرے چینل نے اپنی آئے آئی اینکر متعارف کرا دی ۔ ابھی دشمن سنبھل بھی نہیں پایا تھا کہ تیسرے چینل نے بھی آئے آئی خاتون اینکر متعارف کرا دی ۔ ان پے در پے حملوں سے تادم تحریر تو دشمن کی توپیں خاموش ہوچکی ہیں مگر معرکہ ابھی گرم ہے ۔ بہت سے نیوز چینل اپنے اپنے آئے آئی نیوز اینکر پر کام کر رہے ہیں ۔ کوئی دن جاتے ہیں کہ سب کے پاس اپنا اپنا مصنوعی ذہانت سے لیس نیوز کاسٹر موجود ہوگا ۔
تھی خبر گرم کے غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
یہ جو کچھ آئےآئی کے نام پر ہو رہا ہے ۔ ہماری گواہی تسلیم کر لیں کہ بے چاری آئے آئے کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے ۔ اور جو کچھ ابھی ہونے والا ہے اس میں اس ٹیکنالوجی کا کوئی قصور نہیں ہوگا ۔ بلکہ یہ تو محض اپنی شہرت کا خمیازہ بھگت رہی ہے ۔ ٹی وی چینل جسے آئے آئی اینکر کہہ رہے ہیں وہ دراصل ایک اینی میشن سےبنے اینکر کے سوا کچھ نہیں ۔ جو صرف انگریزی الفاظ کی مناسبت سے جنبش لب کی تربیت رکھتا ہے ۔ مگر ٹی وی چینلوں نے اس غریب سے اردو بلوائی ہے۔ اس لیے وہ جملے کی طوالت تک تو کچھ نہ کچھ ہونٹ ہلاتا ہے ۔ مگر ان کا الفاظ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ اسی لیے اسے فوکس کر کے دکھاتے بھی نہیں ۔ بس دور ہی سے درشن کرائے جاتے ہیں ۔لوگ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ اس اینی میشن سے بنے اینکر کا اردو بول لینا ہی آرٹی فیشل انٹیلی جنس ہے ۔ جب کہ اس ننھی سے صلاحیت پراے آئی کا اطلاق ہوتا نہیں ہے ۔ لمبر ون آنے کی خواہش میں دھڑا دھڑ اے آئی اینکر بنائے جارہے ہیں ۔ کیوں بھائی ؟ اس کا کیا فائدہ ہے ؟فائدہ تو تب ہو جب خبروں کا نظام اے آئی سے بنے ۔ نیوز روم اے آئی سے چلے ۔رپورٹر سے لے کر پروڈیوسر تک آرٹی فیشل انٹیلی جنس سے مستفید ہو ۔اس کے بعد اگر کہیں اینکر اے آئی سے لیس ہو تو بات سمجھ میں بھی آئے ۔ چینلوں کی حالت تو یہ ہے کہ بڑے سے بڑے چینل میں آج تک کاغذوں پر کام ہوتا ہے ۔ کمپیوٹر لگے ہوئے ہیں مگر کاغذ سے جان نہیں چھوٹ رہی ۔ ذہن اس ڈیجیٹل نظام کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے اور اینکر اے آئی والا چاہیے۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کہ نظام کے ڈیجیٹل ہونے سے پہلے سوچ کا ڈیجیتل ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ عمیر نجمی کا شعر یاد کریں
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
جب تک پنجرہ پرندے کے دل میں رہے گا وہ پرواز نہیں کر سکے گا۔ لاکھ اے آئی آجائے نیوزچینل کی حالت تب تک نہیں بدل سکتی جب تک نیوز روم ڈیجیٹل نہ ہو اور اس سے بھی پہلے نیوز روم میں موجود لوگوں کی سوچ ڈیجیٹل نہ ہو ۔ کیوں کہ نیوز روم کو ڈیجیٹل کرنے کا تو ایک طریقہ موجود ہے ۔ چند پروٹوکول ہیں جنہیں اختیار کر کے نیوز روم کو ڈیجیٹل کیا جاسکتا ہے ۔ چند اہم کام کرنے سے یہ پورا نظام ڈیجیٹل ہوسکتا ہے ۔تھوڑے سا وقت ،تھوڑی سی صلاحیت اور تھوڑے سا پیسے لگا کر نیوز روم ڈیجیٹل ہوسکتا ہے ۔ مگر کسی کی سوچ کو بدلنےکا کوئی طریقہ نہیں ہے ۔ یہاں اکثر لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد ۔ جب تک یہ سوچ نہیں بدلے گی اے آئی اینکر ایک سراب دشت ہی رہے گا جس کے پیچھے ہم ایسے لوگ العطش العطش کہتے دوڑتے رہیں گے ۔(حسن علی امام)۔۔