تحریر: منیراحمد بلوچ۔۔
صحافت پر مختلف قسم کی پابندیوں، ارشد شریف کی شہادت اور صحافیوں کو درپیش خطرات کو اجاگر کرنے کے لیے 26 جنوری کو ملک بھر کے پریس کلبوں پر سیاہ جھنڈے لہراتے ہوئے صحافیوں کی جانب سے بھرپور احتجاج کیا گیا۔ اب 30 جنوری کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے پارلیمنٹ ہائوس تک شہیدِ صحافت ارشد شریف کے بہیمانہ قتل اور صحافیوں کی آئے روز گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی مارچ کیا جائے گا۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ احتجاج ایک دھرنے میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ کئی صحافی دوستوں نے بتایا کہ جب سے یہ اعلان ہوا ہے‘ حکومت کے کچھ لوگ میڈیا ورکروں سے فرداً فرداً رابطہ کرتے ہوئے انہیں اس مارچ سے الگ رہنے یا پھر اس مارچ کو دھرنے میں تبدیل کرنے سے روکنے اور باہمی احتجاج نہ کرنے پر آمادہ کرتے ہوئے مختلف ترغیبات اور پُرکشش آفرز کر رہے ہیں۔
صحافت کے درخشندہ ستارے ارشد شریف کو جس طرح ستایا گیا‘ ان پر جو یہاں بیتی کہ وہ ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گئے، انہیں دبئی سے کس طرح نکالا گیا، کینیا میں ان پر کیا گزری، کیسے انہیں موت کے گھاٹ اتارا گیا‘ یہ سب کچھ ملکی صحافت اور انسانی حقوق کی پامالی کے بدترین باب کی حیثیت سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ شعبۂ صحافت سے وابستہ لوگ جو کل تک یک جان دو قالب سمجھے جاتے تھے‘ جو ایک دوسرے کی تکلیف کو اپنا دکھ اور تکلیف سمجھا کرتے تھے‘ اب وہ بھی منقسم نظر آ رہے ہیں۔ مختلف افراد مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی طرح کا رویہ اپناتے نظر آ رہے ہیں۔ اپنی ہی کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر وہ مختلف عذر اور بہانے تراشنے لگتے ہیں۔ جس دن سے کچھ صحافی سیاسی جماعتوں سے منسلک ہوئے ہیں‘ اسی دن سے صحافت پر اور صحافیوں پر برے وقت کا آغاز ہو گیا تھا۔
انصاف کا ترازو تھام کر فیصلہ کیا جائے تو کسی لگی لپٹی کے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت آزادیٔ صحافت کا گلا گھونٹنے اور پیشۂ صحافت سے وابستہ لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنائی جا رہی ہیں۔ آئے دن کسی نہ کسی صحافی، کسی نہ کسی میڈیا ورکر کے خلاف کوئی جھوٹا سچا کیس بنا کر اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں یونیسکو کی صحافیوں کے خلاف جرائم سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی گئی جس میں بتایا گیا کہ 2021ء اور 2022ء میں دنیا بھر میں آزادیٔ اظہار سے متعلق پابندیوں اور مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ برس دنیا بھر میں 86 صحافی قتل ہوئے۔ اوسطاً ہر چار روز میں دنیا میں ایک صحافی کی ہلاکت ہوئی جبکہ 2021ء میں یہ تعداد 55 تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ نتائج صحافیوں کو ان کے کام کے دوران درپیش سنگین خطرات اور پریشر کو واضح کرتے ہیں۔ یونیسکو کے ڈائریکٹر نے ان نتائج کو ”تشویش ناک‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکام ایسے جرائم کو روکنے کے لیے اپنی کوششوں میں اضافہ کریں اور یقینی بنائیں کہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا ملے کیونکہ بے حسی تشدد کے اس ماحول کا ایک بڑا سبب ہے۔ جی ہاں! صحافیوں کے خلاف بڑھتے جرائم کی ایک بڑی وجہ بے حسی ہی ہے۔ یہ بے حسی ہر طبقے کی جانب سے روا رکھی جاتی ہے۔ اندرونِ ملک صحافیوں کے خلاف جرائم سے متعلق ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کے قاتل کھل کر کارروائیاں کرتے ہیں کیونکہ 96 فیصد معاملات میں فوجداری نظام انصاف مقتول صحافیوں کے معاملے میں انصاف کی فراہمی میں ناکام رہا ہے۔ صحافیوں کیلئے سندھ سب سے خطرناک صوبہ ہے‘ جس کے بعد پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا نام آتا ہے۔ پاکستان نے 2013ء میں صحافیوں کے تحفظ کا عزم ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے فریڈم نیٹ ورک پلان کی توثیق کی تھی اور کہا تھا کہ صحافیوں کے تحفظ کے ایکٹ میں اس پلان کو شامل کیا جائے گا لیکن رپورٹ بتاتی ہے کہ صحافیوں کے خلاف جرائم میں خراب تحقیقات کی وجہ سے پولیس کئی کیسز میں چالان پیش کرنے میں ناکام رہتی ہے جس سے انصاف کا مقصد فوت ہو جاتا ہے اور پراسیکیوشن کے خراب معیار کی وجہ سے کئی کیسز ٹرائل بھی پورا نہیں کر پاتے۔ 2012ء سے 2021ء تک پاکستان میں 53 صحافی قتل ہو چکے ہیں اور اس میں سے سب سے زیادہ ہلاکتیں 2014ء میں ہوئیں جب ایک سال میں 13 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ 2012ء کے بعد سے ایک بھی سال ایسا نہیں گزرا جب کوئی صحافی قتل نہ ہوا ہو۔ سب سے زیادہ پرنٹ میڈیا کے صحافیوں کو ٹارگٹ کیا گیا اور اخبارات سے وابستہ 31 صحافی اس عرصے میں قتل ہو چکے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے 23 صحافیوں، ڈیجیٹل میڈیا کے چار اور دو ایسے صحافیوں کو قتل کیا گیا جو ریڈیو سے منسلک تھے۔ مجموعی طور پر دیکھیں تو سب سے زیادہ (30 فیصد) ہلاکتیں سندھ میں ہوئی ہیں۔ 2012ء سے 2022ء تک‘ ہر تیسرا صحافی سندھ میں قتل ہوا۔ پنجاب میں 26 فیصد‘ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں 21 فیصد ہلاکتیں ہوئیں۔
سچ کہوں تو کوئی ادارہ یا حکومت صحافیوں کے خلاف کارروائیاں نہیں کر رہی بلکہ یہ صحافی ہی ہیں جن کی ایک دوسرے سے لاتعلقی اس طرح کی کارروائیوں کا جواز بن رہی ہے۔ اگر حکومت کو یہ یقین ہو جائے کہ کسی ایک صحافی کے خلاف بھی کوئی زیادتی کی گئی تو خیبر سے کراچی تک تمام صحافی یک زبان ہو کر باہر نکل آئیں گے تو کسی کی جرأت نہیں ہو گی کہ میڈیا ورکرز سے کوئی زیادتی کر سکے۔ آج پاکستان میں میڈیا ورکروں سے جو سلوک ہو رہا ہے‘ بنگلہ دیش میں بھی ایسے ہی کیا گیا تھا۔ وہاں صحافیوں کے مختلف گروپس بنائے گئے تھے۔ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں کی شہ اور مراعات کے ذریعے وہاں میڈیا کو ایک دوسرے کے متحارب گروپوں میں بانٹ دیا گیا جو حسینہ واجد حکومت کے کم اور ایک دوسرے کے زیادہ مخالف اور ناقد ہو گئے۔ اسی مخاصمت کی آڑ میںحسینہ واجد حکومت نے صحافیوں پر وہ مظالم ڈھائے کہ یقین نہیں آتا۔ ایشین ہیومن رائٹس کمیشن، انٹرنیشنل فیڈریشن فار ہیومن رائٹس اور ورلڈ آرگنائزیشن آف ٹارچر کی مشترکہ رپورٹ میں بنگلہ دیش میں صحافیوں کے خلاف ڈھائے جانے والے حسینہ واجد سرکار کے مظالم کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستانیں مع تصاویر و ثبوت درج ہیں۔ اس رپورٹ کا میں محض حوالہ دے رہا ہوں کیونکہ اگر زیادہ تفصیل لکھنے لگوں تو کئی صفحات درکار ہوں گے۔ 13 اپریل 2013ء کو بنگلہ دیش کے ڈیلی امردیش کے ایڈیٹر محمود الرحمن کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ان کے اخبار کو بھی اس جرم میں بند کر دیا گیا کہ اس میں حسینہ واجد کے بیٹے سجیب واجد کی کرپشن اور اس کے جوا کھیلنے کے دستاویزی ثبوت شائع کیے گئے تھے۔ محمود الرحمن کو تین سال سے زائد عرصہ تک قید رکھا گیا۔ جب اس مقدمے میں ہائیکورٹ سے اس کی ضمانت ہوئی تو اسے ایک اور مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا جبکہ اخبار بند ہونے سے سینکڑوں صحافی بیروزگار ہوئے۔ (کیا یہی کچھ اب ہمارے یہاں نہیں ہو رہا؟ کیا میڈیا گروپس بند ہونے سے سینکڑوں صحافیوں کا روزگار بند نہیں ہو گا)۔ ایک ٹی وی چینل کے مالک عبد السلام کو 6 جنوری 2015ء کو اس جرم میں گرفتار کیا گیا کہ اس نے بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کی سینئر وائس چیئرمین‘ جو جلا وطنی کی زندگی گزار رہی ہیں‘ کا خطاب نشر کرنے کی جسارت کی تھی۔ پھر حکومت نے ایک صنعتکار کو زبردستی اس ٹی وی چینل کے اکثریتی شیئرز کا مالک بنا کر سارا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ (آج بھارت میں NDTV جیسے غیر جانبدار ٹی وی چینل کو نریندر مودی کے دستِ راست نے خرید لیا ہے)۔ ویکلی اکنامک کے ایڈیٹر شوکت محمود‘ جو حسینہ واجد کی پالیسیوں کے سخت ناقد ہیں‘ 18 اگست 2015ء سے قید میں ہیں۔ ان پر 25 مقدمات جبکہ ڈیلی سٹار کے ایڈیٹر محفوظ عالم پر حسینہ واجد حکومت نے 79 مقدمات درج کرائے۔ ان پر الزام یہ تھا کہ انہوں نے 2007ء میں حسینہ واجد کی کرپشن سے متعلق خبریں شائع کی تھیں۔ یہی سلسلہ اب پاکستان میں شروع ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت کی طرح پی ڈی ایم حکومت بھی سچ کی آواز دبانے اور حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف میدان میں اتر آئی ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)
ارشد شریف شہیدِ صحافت
Facebook Comments