wazir e azam ne muatbar inquiry commission nahi banaya | Salman Iqbal

ارشدشریف سلمان اقبال کے کہنے پر کینیا گئے؟

اینکر پرسن حافظ زین علی نے دعویٰ کیا ہے کہ ارشد شریف اے آر وائی نیوز کے مالک سلمان اقبال کے کہنے پر کینیا گئے۔اپنے ایک وی لاگ میں زین علی نے دعویٰ کیا کہ ارشد شریف دبئی میں موجود تھے لیکن حکومت پاکستان نے دبئی حکام کو کہہ دیا تھا کہ ارشد شریف کو ڈی پورٹ کیا جائے ، دبئی کے حکام نے انہیں 48 گھنٹے کا وقت دیا تھا، وہ وقت ختم ہونے سے پہلے انہوں نے اے آر وائی نیوز کے مالک سلمان اقبال سے بات کی اور کہا کہ ان کا کسی ایسے ملک میں بندو بست کیا جائے جہاں وہ کچھ دن رہ سکیں۔زین علی کے مطابق سلمان اقبال نے ارشد شریف کو دو بھائیوں وقار احمد اور خرم احمد جو کراچی کے بزنس مین ہیں، ان کا نمبر دیا اور ان سے رابطہ کروایا اور کہا کہ اپنے پاسپورٹ کی کاپی انہیں بھیجو اور دو سے تین گھنٹے میں کینیا چلے جاؤ۔ ارشد شریف کو یہ آپشن بھی دیا گیا کہ وہ سری لنکا چلے جائیں لیکن وہاں کے حالات پہلے ہی خراب ہیں اس لیے انہیں کہا گیا کہ وہ کینیا میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔صحافی زین علی نے دعویٰ کیا ہے کہ ارشد شریف کے قتل میں ان کے میزبان وقار احمد اور خرم احمد پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔اپنے ایک وی لاگ میں زین علی نے دعویٰ کیا کہ ارشد شریف کے ساتھ فائرنگ کے وقت گاڑی میں خرم احمد موجود تھے۔ یہ دو بھائی وقار احمد اور خرم احمد کراچی سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا کراچی کے ساتھ ساتھ کینیا میں بھی وسیع کاروبار ہے۔ یہ اے آر وائی نیوز کے مالک سلمان اقبال کے دوست ہیں اور ارشد شریف کو جب دبئی سے ڈی پورٹ کیا جا رہا تھا تو سلمان اقبال نے ہی انہیں اپنے ان دوستوں کے پاس بھیجا تھا۔زین علی کے مطابق خرم احمد نے اپنے پہلے مبینہ  بیان میں کہا ہے کہ ارشد شریف ان کے فارم ہاؤس میں موجود تھے، وہاں سے کھانا کھا کر دوسرے فارم ہاؤس جا رہے تھے، یہاں ارشد شریف کے رہنے کا انتظام کیا گیا تھا، دوسرے فارم ہاؤس سے 14 سے 15 کلومیٹر دور ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع ہوگئی ، اسی اثنا میں خرم نے اپنے بھائی وقار کو فون ملا دیا اور واقعے کے بارے میں بتایا، وقار نے اپنے بھائی کو وہاں سے گاڑی بھگا کر دوسرے فارم ہاؤس پر پہنچنے کا کہا۔ خرم کے بیان کے مطابق جب وہ وہاں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ارشد شریف شہید ہوچکے تھے۔زین علی کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کے معاملے میں سوالات وقار احمد اور خرم احمد پر اٹھ رہے ہیں۔ کینیا میں ارشد شریف کی موجودگی کا صرف تین سے چار لوگوں کو پتا تھا۔ اس حوالے سے سلمان اقبال، ارشد شریف کے پروڈیوسر عادل راجہ اور ارشد شریف کی والدہ کو پتا تھا کہ وہ کینیا میں وقار اور خرم کے پاس موجود ہیں، اس بات کا ان کی اہلیہ کو بھی نہیں پتا تھا تو  یہ انفارمیشن لیک کیسے ہوئی؟زین علی کا کہنا ہے کہ ارشد شریف کی والدہ نے کچھ صحافیوں سے یہ بات کہی ہے کہ وقار احمد اور خرم احمد سے تحقیقات ہونی چاہئیں، ان کے ہوتے ہوئے ایسا واقعہ کیوں پیش آیا؟ فرانزک ماہرین کا کہنا ہے کہ خرم احمد کے بیان پر یقین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کے بیان کے مطابق چلتی گاڑی پر فائرنگ ہوئی جب کہ ارشد شریف کی ڈیڈ باڈی دیکھ کر لگتا ہے کہ ان کی گاڑی روک کر انتہائی قریب سے فائرنگ کی گئی، اس کہانی میں بہت زیادہ جھول ہے۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں