دی نیوز اور جیو کی انویسٹی گیشن کے مطابق معروف پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل میں ملوث کینیا کے پانچ پولیس آفیسرز نے بغیر کسی کارروائی کے خاموشی کے ساتھ اپنی سرکاری ڈیوٹی دوبارہ شروع کر دی ہے۔مشرقی افریقی ملک کے ایک دور افتادہ علاقے میں روڈ بلاک پر ارشد شریف کے قتل کے نو ماہ بعد بھی اس سفاکانہ قتل میں ملوث پانچ پولیس اہلکار پولیس کی مکمل مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور ان کی معطلی کینیا کے حکام کی جانب سے صرف وائٹ واش ہی ثابت ہوئی ہے۔نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کینیا کے صدر ڈاکٹر ولیم ساموئی روٹو کی دعوت پر آئندہ ماہ کینیا کا دورہ کریں گے۔ ان کے ہمراہ نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور کابینہ کے دیگر ارکان اور مشیر بھی ہوں گے۔ایک قابل اعتماد سیکورٹی ذریعے نے بتایا کہ مہلک فائرنگ کے تبادلے میں ملوث پانچ پولیس اہلکار کام پر واپس آگئے ہیں اور ان میں سے دو کو سینئر رینک پر ترقی دے دی گئی ہے۔کینیا کی انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اینڈ اوور سائیٹ اتھارٹی (آئی پی او اے) جس کو پولیس آفیسرز کے طرزعمل کی تحقیقات کا کام سونپا گیا ہے ارشد شریف کے قتل کے بارے میں ہفتوں کے اندر اپ ڈیٹ دینے کا وعدہ کرنے کے باوجود نو ماہ سے زائد عرصے میں اپنے نتائج منظر عام پر نہیں لا ئی ہے ۔آئی پی او اے سے جب اس معاملے میں پوچھا گیا تو ایک بیان میں کہا گیا کہ جب ہم اس معاملے کی انویسٹی گیش مکمل کر لیں گے تو اس بارے میں اپ ڈیٹ دیں گے ۔آئی پی او اے کے ترجمان نے ٹائم اسکیل دینے سے انکار کیا اور اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ واچ ڈاگ نے اتنا وقت کیوں لیا اور پولیس آفیسرز بغیر کسی احتساب کے اپنی ملازمتوں پر واپس کیوں آ گئے ۔یہ بات قابل غور ہے کہ آئی پی او اے نے پہلے ہی اپنی فائل ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن (ڈی پی پی) کے دفتر کے حوالے کر دی تھی لیکن اسے واپس کر دیا گیا تھا اور ان سے کہا گیا تھا کہ پراسیکیوشن پراسس شروع ہونے سے قبل اس میں کچھ گیپس کو پر کیا جائے۔ہماری انویسٹی گیشن کے مطابق مشرقی افریقی ملک میں ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات پر خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ جنرل سروس یونٹ ( جی ایس یو ) سے منسلک ایک پولیس افسر مسٹر کیون کیمیو متوکو جسے مبینہ طور پر جائے وقوع پر گولی مار دی گئی تھی جہاں ارشد شریف کو قتل کیا گیا تھا ہسپتال سے فارغ ہونے کے فوری بعد کام پر واپس چلا گیا تھا ۔اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اسے اس وقت گولی لگی تھی جب ارشد شریف کی گاڑی کے اندر سے گولیاں چلائی گئی تھیں لیکن فرانزک انویسٹی گیشن میں پتہ چلا کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا ۔ارشد شریف 20 اگست کو کینیا کے دارالحکومت پہنچے تھے اور 23 ا کتوبر کو فائرنگ کے تبادلے میں جاں بحق ہو گئے تھے جس میں خرم احمد معجزانہ طور پر بچ گیا تھا۔۔ انچاس سالہ شخص اگست میں گرفتاری سے بچنے کیلئے پاکستان سے فرار ہو گیا تھا جب اس کے خلاف عمران خان کے سابق ساتھی شہباز گل کے ساتھ انٹرویو کے دوران بغاوت کے الزامات سمیت کئی مقدمات درج کیے گئے تھے ۔کینیا کے دارالحکومت نیروبی پہنچنے کے بعد ارشد شریف کراچی کے تاجر وقار احمد کے ریور سائیڈ پینٹ ہاؤس میں ٹھہرے اور ارشد کے قتل کے وقت ان کا بھائی خرم احمد گاڑی چلا رہا تھا ۔معروف صحافی کو اموڈمپ کیونیا ٹریننگ کیمپ سے باہر لے جایا جا رہا تھا یہ جوائنٹ خرم احمد کے بھائی وقار احمد کی ملکیت ہے اور وہ نیروبی کاؤنٹی جا رہے تھے جہاں وہ قیام پذیر تھے۔کینیا کے ایک قابل اعتماد سینئر انٹیلی جنس ذریعے نے اعتماد میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کینیا میں نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) ارشد شریف کی تحقیقات میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی تھی کیونکہ اس میں اس کے ارکان ملوث تھے اور باڈی آئی پی او اے کو ایسی تحقیقات کرنے کی اجازت تھی۔
ارشدشریف قتل کیس میں ملوث کینیائی پولیس اہلکار بحال۔۔
Facebook Comments