تحریر: ناصر جمال
ارشد شریف اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئے۔ ایک دن سب کو ہی حاضر ہونا ہے۔ مگر وہ ایک المناک موت کا شکار ہوئے۔ سب سے بڑا نقصان،ایک بیوی، ماں اور بچوں کا ہوا ہے۔ میری ارشد شریف کی پہلی ملاقات، لال مسجد کی رپورٹنگ کے دوران ہوئی تھی۔ اپنی مخصوص طبیعت کے باعث، ان کے وہاں پر کے۔ ٹو اور خیبر ٹی وی کے راجہ جواد سے سینگ پھنس گئے۔ وہ بنیادی صحافتی اقدار کے حوالے سے آئیڈیلسٹ سوچ رکھتے تھے۔ انھیں شاید، اس کا احساس آخری وقت تک نہیں ہوا کہ جب یہ دنیا ہی آئیڈیل نہیں ہے تو ،پھرایسی ’’اپروچ‘‘ تو نقصان ہی کرے گی۔جب وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تھے۔ اور جب خلاف ہوئے۔ انھوں نے ’’ہارڈ لائن‘‘ اختیار کی۔ وہ بلیک اینڈ وائٹ میں پھنسے رہے۔ ’’گرے ایریا‘‘ کو ساتھ ملا کر انھوں نے کبھی نہیں دیکھا۔ پتا نہیں برادرم رئوف کلاسرہ نے انھیں، یہ پروفیشنل راز یا گُر کیوں نہیں سکھایا۔ ہم صحافی ہیں۔ ہم سیاسی ورکر نہیں۔ نہ ہی اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی ہیں۔ ہمارا کام تو لوگوں کی سوچ بنانے کے لئے ایسا مواد فراہم کرنا ہے۔ جس کا تجزیہ کرکے، وہ ایک اچھی اپروچ لے سکیں۔ ہمارا کام بیان کرنا ہے۔ مگر حقائق ننگے پیش نہیں کئے جاتے۔ انھیں ’’پیمپر‘‘ کیا جاتا ہے۔ سماج ہے۔ کچھ حدود و قیود ہیں۔ ریاست کے مفادات ہیں۔ صحافت بیوقوفوں کے لئے نہیں کی جاتی۔ یہ بہتر شعوری کیفیات ابھارنے کے لئے کی جاتی ہے۔
ہر اچھے اور کامیاب صحافی نے بطور خاص، بین السطور لکھاہے۔ مزے دارٹرمنالوجی استعمال کی ہے۔ اپنے قاری کو سیدھے سادھے، ’’طنزیہ‘‘ جملوں سے بہت کچھ سمجھایا ہے۔صحافت ٹونٹی، ٹونٹی نہیں ہے۔میرے کالم، سرینڈر، سرینڈر، ایک اور سرینڈر کو ارشد شریف نے اجازت لیکر اپنی ویب سائیٹ پر شیئر کیا تھا۔ کہا کہ بہت ہی ’’پاور فُل‘‘ لکھا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ارشد شریف ایک باصلاحیت صحافی تھا۔ حساس شخص بھی تھا۔ اس ملک سے اُس کی وفاداری مسلمہ تھی۔
قارئین۔۔اس نے جو ’’ہارڈ لائن‘‘ لی۔ اس میں ناچاہتے ہوئے بھی، وہ ’’پارٹی‘‘ بن گیا۔ شاید اُسے بھی یہ نہیں پتا چلا۔ ڈبہ یعنی ٹی۔ وی بہت ہی خطرناک چیز ہے۔ یہ انسان کا دماغ پلٹ دیتی ہے۔ اینکر خود کو عقل کُل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے بھی خطرناک سوچ یہ ہے کہ جب آپ اپنے آپ کو’’حکومت‘‘ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ میر شکیل الرحمٰن کو تو اس سے بڑھ کر زُعم تھا۔ وہ خود کو اسٹیبلشمنٹ مانتے تھے۔ انھیں گمان تھا کہ وہ حکومتیں گراتے اور بناتے ہیں۔ پھر کیا ہوا۔ انھیں آخر اپنا ’’سافٹ ویئر‘‘ اپ ڈیٹ کرنا ہی پڑا۔
میں برملا کہتا آیا ہوں کہ اگر کوئی عمران خان کو ایماندار اور اس ملک کا نجات دہندہ سمجھتا ہے تو، وہ اپنا ذہنی علاج کروائے۔اشرافیہ کے کلب میں ایک سے بڑھ کر ایک ’’ہیرا‘‘ ہے۔ چاہے اس کا تعلق انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ یا بزنس سے ہو۔عمران خان جہاں اس ریاست کو نگلنے جارہے ہیں۔ ارشد شریف تو ایک سیاست کی بساط کا چھوٹا مہرہ بھی نہیں تھا۔ آخر ہمارے صحافی کب سدھریں گے۔ آپ کیوں نہیں سمجھتے کہ صرف آپ یا کوئی ایک ریاست نہیں ہے۔ ہمیں بہتر ریاست، طرز حکومت اور معاشرے کے لئے یقیناً اجتماعی کوششیں کرنا ہونگی۔ مگر اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ یہ ایک طویل جنگ ہے۔ جو کہ نسلوں پر محیط ہے۔ کیا عمران خان کو خمینی، فیدل کاسترو اور چی گویرا بنانے والے بتا سکتے ہیں کہ ملک ریاض کے برطانیہ سے آنیوالے 192ملین پائونڈ کیا میں نے اسٹیٹ سیکرٹ بنا کر، سپریم کورٹ کے جرمانے میں ایڈجسٹ کئے تھے۔ یہ فیصلہ عمران خان کی کابینہ کا تھا۔ یا یہ بھی 22کروڑ لوگوں کی غلطی ہے۔ چھوڑیں توشہ خانہ، پنکی اور فرح گوگی کی بات نہ کریں۔ آپ نواز فیملی کو دیکھ لیں۔ مرد حُر کے خاندان اور ان سب کی پارٹیوں کو دیکھ لیں۔ سب گردن، گردن تک’’غیر مہذب اعمال‘‘ میں دھنسے ہوئے ہیں۔ کیا بیورو کریسی، کیا صحافت، کیا عدلیہ، کیا اسٹیبلشمنٹ، سب کے سب بے نقاب ہیں۔ سب دوسروں کا احتساب چاہتے ہیں۔ آج بطور ریاست اور معاشرہ جہاں ہم کھڑے ہیں۔ وہ کوئی قابل فخر مقام نہیں ہے۔ سب ایکسپوژڈ ہوچکے ہیں۔ مریم نواز کا ارشدشریف کے حوالے سے ٹویٹ تکلیف دہ ہے۔ مگر مریم نواز نے اپنی والدہ کے حوالے سے جس کرب کا اظہار کیا ہے۔ اس کی بھی بات ہونی چاہئے۔
ہمیں بھی صحافت میں اچھے الفاظ کا چنائو کرنا چاہئے۔ مگر کیا کیجئے۔ اگر آج صحافت کی پہچان، ارشاد بھٹی، چوہدری غلام حسین، اور مظہر برلاس ہے تو ،ہمیں اس سب کا ہی سامنا کرنا پڑے گا۔آج صحافت کا جنازہ نکالنے کے ذمہ دار، صرف سیٹھ نہیں ہیں۔ ہم صحافیوں نے بھی کمال’’دلالی‘‘ کی ہے۔ آج جیو، سمیت بڑے ٹی۔وی چینل اور تمام بڑے اینکرز، اپنے پروگرام میں ارشاد بھٹی کو بٹھانے کا میرٹ بتادیں۔ اگر کوئی میرٹ نہیں ہے تو ،پھر آپ سب ڈوب مریں۔
قارئین۔۔ارشد شریف کے سانحہ پر جیسے افواج پاکستان اور حساس اداروں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ ان پر تبرہ بھیجا جارہا ہے۔ یہ بین ارشد شریف کے قتل کی طرح ناقابل قبول ہے۔ پتا نہیں کون، کون سی کڑی لاکر جوڑی جارہی ہے۔ 24گھنٹے میں ریاست کے دشمنوں اور نادان دوستوں نے ثبوت اکھٹے کرکے ٹرائل مکمل کیا اور فیصلہ بھی سُنا دیا۔میں مکمل یقین سے کہتا ہوں۔ اگر اسٹیبلشمنٹ چاہتی تو ارشد شریف ملک سے باہر جاہی نہیں سکتا تھا۔ یہاں ہم جنس پرستی کا واقعہ ہو تو، اسے آزادی صحافت سے جوڑ کر، طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ کسی کو کوئی ’’خواجہ سرا‘‘ تھپڑ مار دے تو بھی صحافت کی عزت لُٹ جاتی ہے۔ایسا نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں، بیورو کریسی، عدلیہ اور صحافت کے مابین مسائل نہیں ہیں۔ جی ہاں!!! ہیں۔ اس کا حل کس نے نکالنا ہے۔ کوئی معین قریشی اور شوکت عزیز نے تو نہیں نکالنا۔ آپ کو ہی بیٹھنا ہوگا۔ آپ حدود و قیود کا تعین کریں۔ شخصیات کی بجائے، سسٹم مضبوط کریں۔ نہیں کریں گے تو، آپ پھر ایسے ہی تباہ ہونگے۔ رہ گیا لانگ مارچ تو عمران خان کرکے دیکھ لیں۔ اور سب گھر بیٹھ جائیں گے۔ موج دریا میں ہے۔ بیرون دریا صرف تماشا دیکھا جاسکتا ہے۔(ناصر جمال)۔۔