seedha faisla karen social media karden

ارشد شریف کی سالگرہ

تحریر: رؤف کلاسرا۔۔

دس برس گزر گئے۔اندر کی تنہائی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی چلی گئی۔ جن کے دم سے اس زندگی کی محفلیں تھیں وہ دھیرے دھیرے چل دیے۔

فروری کا مہینہ ہر سال میرے لیے دکھ لاتا تھا۔اکیس فروری 2013ء کو نعیم بھائی فوت ہوئے تھے۔آج بائیس فروری کو ارشد شریف کی سالگرہ ہے۔ کل سارا دن نعیم بھائی کے دکھ میں گزرا تو آج سارا دن ارشد شریف کے دکھ میں‘ جو پچاس سال قبل آج کے روز پیدا ہوا تھا۔

پہلے نعیم بھائی کی اچانک موت نے تنہا کر دیا۔ کچھ سنبھل رہا تھا تو ڈاکٹر ظفر الطاف چل دیے‘ پھر رانا اعجاز محمود اور اب ارشد شریف۔ ارشد شریف کا دکھ زیادہ بڑا ہے کہ اسے جس دردناک طریقے سے قتل کیا گیا وہ دل پر ایسا گھائو ہے جو شاید کبھی نہ بھر سکے۔میری لائف کا زیادہ وقت ان چار لوگوں کے ساتھ گزرا‘یا یوں کہہ لیں ان چاروں کی کمپنی میں ہی خوش رہا۔میرے پاس نعیم بھائی کی اپنے بچپن کی یادیں نہیں ہیں کیونکہ میں بچہ تھا تو وہ بہاولپور میڈیکل کالج چلے گئے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے مجھے بچوں کی کہانیاں بہاولپور سے بھیجی تھیں۔مجھے آج تک وہ سننی خیزی نہیں بھولتی جو اُن کتابوں کو پاکر ہوئی تھی۔ ان کا ہم سب کی زندگیوں میں بڑا اہم کردار تھا۔ ان کی محبت میں ایسی طاقت تھی کہ میں صرف انہی سے ڈرتا تھا کہ وہ ناراض نہ ہو جائیں حالانکہ مجھ پر کبھی غصہ نہ کیا۔ یونیورسٹی کے دنوں میں ان کے زیادہ قریب ہوا۔ ملتان سے ہر ویک اینڈ پر بہاولپور ان کے پاس چلا جاتا۔ اکثر وہ اپنے ہوسٹل کے کمرے میں فرش پر سو رہے ہوتے اور ڈیرہ غازی خان‘ تونسہ‘ ملتان یا لیہ سے گیا کوئی مہمان ان کے بستر پر اوپر سو رہا ہوتا۔ میں بھی چپ چاپ ان کے ساتھ نیچے فرش پران کے ساتھ سو جاتا۔ اکثر ان سے لڑتا کہ صبح آپ نے ڈیوٹی پر جانا ہوتا ہے‘ آپ فرش پر سو رہے ہوتے ہیں جبکہ جو اپنے کاموں سے آتے ہیں وہ اوپربستر پر سوتے ہیں۔ ان کے کمرے کو کبھی تالا نہیں لگا ہوتا تھا۔ جس کا دل چاہے کمرے میں جا کر سو جائے اور جتنے دن رہنا چاہے‘ رہے۔

کہنے لگے: میں رات کو واپس آتا ہوں تو کوئی نہ کوئی میرے بستر پر سو رہا ہوتا ہے۔ اب میں ایک سوئے بندے کو کیسے اٹھائوں کہ تم نیچے سو جائو‘ بستر پر میں نے سونا ہے۔ کیا فرق پڑتا ہے کچھ گھنٹوں کی ہے تو رات ہے۔اکثر دوپہر کو وہ اپنی نیند پوری کررہے ہوتے۔

دوسری موت جس نے مجھے بہت ڈسڑب کیا وہ ڈاکٹر ظفر الطاف تھے۔ ان جیسا ہیرابندہ زندگی میں پھر نہ ملا۔ ایک انسان دوست بیوروکریٹ۔ کسی دوست سے بات ہورہی تھی۔ میں نے کہا‘ بچپن سے سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی اور صحافتی لائف میں کتنے دوست بنے لیکن اگر کسی ایک دوست کو پِک کرنا پڑا جس کے ساتھ کسی اور جنم میں وقت گزارا جاسکتا ہوتو وہ ڈاکٹر ظفر الطاف ہوں گے۔ ان جیسا مہربان‘ انسان دوست‘ پڑھا لکھا اور کھلا ڈلا بندہ پھر نہ ملا۔ مجھے آج بھی لگتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد میری اپنی ذہنی گروتھ رُک سی گئی۔ ان سے روز ملنا اور گھنٹوں گزارنا اور کبھی بور نہ ہونا۔اسی طرح رانا اعجاز محمود سے بھی ملاقات اچانک ہی ہوئی تھی۔ ملتان میں تھا تو لیہ میں بینک کا کوئی کام تھا۔ کسی نے ان کا ریفرنس دیا۔ ان کے دفتر گیا۔ شاید 1994ء کی بات ہے۔ کام تو کہیں دور رہ گیا‘مگر رانا اعجاز محمود سے پھر ایسی دوستی ہوئی کہ انہیں اپنا مرشد کہنے لگا۔ رانا اعجاز کی اپنی کلاس تھی۔ چوک اعظم ان کے گھر جانا اور راتیں وہاں بسر کرنا۔ راجپوتوں کے گھر کے بنے دال چاول کی لذت آج تک نہیں بھولی۔ رانا اعجاز اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن تھے۔ وہ سنجیدہ ہوتے تو ان جیسی سنجیدہ گفتگو کوئی نہ کرسکتا۔ وہ لٹریری گفتگو کرتے تو ان کا کوئی جوڑ نہیں تھا۔ وہ میوزک‘ آرٹ‘ شاعری‘ فوک وزڈم‘ سیاست‘ کسی بھی ٹاپک پر بولتے تو آپ انہیں گھنٹوں چپ کر کے سن سکتے تھے۔ مرشد اگر مذاق پر اُتر آتے تو ان سے بڑا جگت باز کوئی نہ تھا۔ ایک دن نعیم بھائی کی برسی پر وہ گائوں آئے۔ ہم سب قبرستان گئے توقبر پر بیٹھ کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے ایسی دعا کرائی کہ میں حیرانی سے انہیں دیکھتا رہ گیا۔ ان کا یہ روپ پہلی دفعہ دیکھ رہا تھا۔

لیکن ارشد شریف کی موت نعیم بھائی‘ ڈاکٹر ظفر الطاف اور رانا اعجاز محمود سے بڑا صدمہ بن کر آئی۔ برسوں کا تعلق اور اچانک آپ کو رات گئے اطلاع ملے کہ ارشد شریف کو قتل کر دیا گیا ہے تو آپ کی کیا حالت ہوسکتی ہے؟اسلام آباد میں اب باہر نکلنے کو دل نہیں کرتا‘نہ کسی سے ملنے کو۔ شہر کے ہر کونے میں ارشد شریف کی یادیں بکھری پڑی ہیں۔ لندن میں اکٹھے رہے‘ ناروے میں دس دن اکٹھے گزارے‘ ٹی وی چینلز پر اکٹھے کام کیا۔ ایک دوسرے کی دوستیاں دشمنیاں اکٹھے نبھائیں۔ کوئی بھی سفر کیا تو اکٹھے کیا۔اسلام آباد میں تقریباً دن کے دس‘ بارہ گھنٹے اکٹھے گزارتے۔ارشد شریف جس بات پر قائل ہوجاتا تھا پھر اسے دنیا کی کوئی طاقت اپنی جگہ سے نہیں ہلا سکتی تھی۔ وہ اپنے نظریات پر جان دے سکتا تھا‘ پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا اور یہ بات اس نے اپنی جان دے کر ثابت کر دی۔ارشد شریف کی ایک بہت قریبی رشتہ دار خاتون نے میری بیوی سے گلہ کیا کہ ارشد شریف کے اتنے دوست تھے کسی نے اسے ٹھنڈا کرنے یا کچھ عرصہ کے لیے کچھ بریک لگانے کا نہیں کہا؟ ان کا اشارہ شاید میری طرف تھا۔ وہ کہنے لگیں: انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ ارشد شریف کے دوستوں نے اس کی جان بچانے میں وہ رول ادا نہ کیا۔ میری بیوی نے جواب دیا: رئوف نے اپنے ایک کالم میں لکھا کہ وہ کیسے وہ ارشد شریف کو مسلسل ان خطرات سے بچانے کی کوشش کررہا تھا تو پوری قوم ہی اس سے ناراض ہوگئی کہ تم اپنے دوست کو بزدلی کا سبق سکھا رہے ہو۔اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ آپ کے اصل دوست وہی ہوتے ہیں جو آپ کو خطرات سے بچانے کے بجائے آپ کو کنویں میں دھکا دے کر آپ کی لاش پر سب سے پہلے آنسو بہانے بھی پہنچ جائیں۔ وہ دوست ہی بہادر کہلاتے ہیں۔

ارشد شریف کو جن لوگوں نے قتل کیا یا کرایا‘ وہ نہ اس دنیا میں سکون پائیں گے نہ اگلی دنیا میں۔ ہمارے مشترکہ دوست شاہد بھائی‘ جن کے گھر ہماری محفلیں جمتی تھیں‘ نے کیا دل ہلانے والی بات کی کہ ارشد شریف کا قتل ان لوگوں کو ہضم نہیں ہوگا۔ اس کے قاتل ایک دن خود اپنے احساسِ جرم سے بول پڑیں گے۔ وہ سکون سے سو نہیں پائیں گے۔ملتان کے دوست شکیل انجم نے کیا دل کو ٹچ کرنے والی بات اپنے فیس بک پر لکھی کہ ارشد شریف کے قاتلوں کا دل اس کے چہرے پر ہر وقت پھیلی کیوٹ مسکراہٹ دیکھ کر بھی نہ پسیجا؟ وہ کسی کا کیا بگاڑ لیتا۔اس کی خبروں سے کون سی قیامت آرہی تھی۔اب پتا چل رہا ہے کہ موجودہ حکومت ارشد شریف کی تحقیقات میں دلچسپی نہیں دکھا رہی۔ وہ بھلا کیوں دکھائے گی۔ ارشد شریف سب سے زیادہ اس حکومت کو ہی اپنے پروگرامز میں ہٹ کررہا تھا۔

کبھی نہ سوچا تھا کہ ارشد شریف کی سالگرہ والے دن مجھے نعیم بھائی سے بچھڑے دس سالوں کی تنہائی کا یہ باب لکھنا پڑے گا۔ ابھی تو نعیم بھائی‘ ڈاکٹر ظفر الطاف اور رانا اعجاز محمود کی تنہائی کا دکھ بھرنے کا نام نہیں لے رہا تھا کہ دل کے قبرستان میں ایک اور قبر بن گئی ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں